نریندر مودی کا دورہ کشمیر

پیر 9 نومبر 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان وائٹ ہاس میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا ۔امریکی صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کے مابین یہ طے پایا تھا کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر بات چیت کی جائے گی تاہم کیا کیجئے کہ نریندر مودی کی صورت میں بھارت کو ایک ایسا وزیر اعظم میسر آیا ہے جو بدقسمتی سے اس اہم منصب کا مستحق ہی نہیں تھا ۔

عام انتخابات میں بے جے پی کی واضح برتری اور مودی کی بطور وزر اعظم نامزدگی پر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ نریندر مودی اپنی سابقہ روش سے اجتناب کرتے ہوئے خطے کے پائیدار امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے ۔ لیکن مودی حکومت کی کارکردگی نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے کہ مودی ایک اعتدال پسند لیڈر بن سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

نریندر مودی کی آشیر باد سے بھارت میں ہندو انتہا پسند اقلیتوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور مذہبی رسومات کوتضحیک کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے ۔

بالخصوص بھارتی مسلمان انتہا پسند ہندؤں کے نشانے پر ہیں ۔مسلمانوں کیلئے گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور جہاں کسی مسلمان کو گائے ذبح کرتے یا اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھ لیا جاتا ہے اس پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے بعض واقعات میں تو گائے ذبح کرنے کے شبہ میں مسلمانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں مقبوضہ کشمیر میں بھی پیش آیا جہاں انیس سالہ ٹرک ورکرزاہد رسول بھٹ کو ہندو انتہا پسندوں نے گائے ذبح کرنے کے شبہ میں شہیدکر دیا تھا ۔

جس جگہ پر ہندوں نے زاہد رسول بھٹ کے ٹرک پر پٹرول بموں سے حملہ کیا تھا، اس کے قریب ہی ایک ندی سے دو مردہ گائیں بھی ملی تھیں، جن کے بارے میں افواہیں یہ تھیں کہ انہیں اسی مسلمان نوجوان نے ہلاک کیا تھا۔ بعد میں ایک ماہر امراض حیوانات کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ یہ دونوں گائیں زہر دیے جانے سے ہلاک ہوئی تھیں ان کو زاہد رسول بھٹ نے ذبح یا ہلاک نہیں کیا تھا ۔

اس واقعہ کے بعد کشمیر میں حالات کشیدہ ہوگئے نہ صرف تمام اسکول اور کاروباری ادارے بند رہے بلکہ مقامی یونیورسٹیوں میں امتحانات بھی منسوخ کرنا پڑ گئے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں بھارتی نیم فوجی دستے اور سکیورٹی اہلکار سڑکوں پر گشت کرکے احتجاج کی شدت میں کمی لانے کی کوشش کرتے رہے۔زاہد رسول کی بہمانہ شہادت کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان حد ردجہ غمزدہ تھے کہ مسلم اکثریت والی ریاست میں ایک مسلمان نوجوان کو محض اس شک پر قتل کر دینا کہ اس نے گائے کو ذبح کیا ہے تمام مسلمانوں کے عقائد اور نظریات کی توہین ہے ۔

مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے ریاست میں کرفیو نافذکرنا پڑا اورجب زاہد رسول بھٹ کو جنوبی کشمیر میں اس کے آبائی گاؤں بوٹینگو میں سپرد خاک کیا گیا تواس روز کشمیر میں تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور مسلم سماجی تنظیموں نے ہڑتال کی کال دی جو بھر پور کامیاب ہوئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ
بھارتی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کے دیکھتے ہوئے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رواں برس جولائی میں بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ظالمانہ قوانین کی تنسیخ کرے جو انہی سکیورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جن پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام ہے۔

اپنی ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات پر بھی زور دیا ۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایفسپا کے نام سے سنہ 1990 میں علیحدگی پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے قانون لاگو کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ قانون لوگوں کو مزید دور کرنے کا باعث بنا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔آرمڈ فورسز سپیشنل پاورز ایکٹ کے تحت فوجیوں کو مشتبہ شدت پسندوں کو گولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان وسیع اختیارات کی وجہ سے اس غیر مستحکم خطے میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں ایک بھی فوجی پر سول عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔ایمنسٹی کے گلوبل ڈائریکٹر منر پمپل کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے کی جانے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے بھارت نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اپنے آئین کی پاسداری بھی نہیں کر پایا ہے۔

رپورٹ میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے ان خلاف ورزیوں پر حکومتی رد عمل نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35Aاور ریاست کشمیر
مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسندوں کے بعد اب ہندنواز سیاسی تنظیمیں بھی برملا کہتی ہیں کہ ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

87 رکنی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے بھارتی آئین کی ایک ایسی دفعہ کے حق میں مظاہرے کئے جو مسلم اکثریت کے مفاد کا تحفظ کر رہی ہیں۔بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کے تحت بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمینیں خریدنے، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے اور دوسری سرکاری مراعات کا قانونی حق نہیں ہے۔یہ دراصل دفعہ 370 کی ہی ایک ذیلی دفعہ ہے جسے 68 برس قبل بھارتی آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

1953 میں اس وقت کے خودمختار حکمران شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا، جس کی رو سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔لیکن بھارت میں بی جے پی کا اقتدار قائم ہوتے ہی آر ایس ایس کی حمایت یافتہ این جی او جموں کشمیر سٹڈی سینٹر کے سربراہ آشوتوش بھٹناگر نے بھارتی سپریم کورٹ میں اسی آئینی دفعہ کو چیلنج کیا۔

اب معاملہ زیرسماعت ہے اور سپریم کورٹ نے مفتی سعید کی حکومت کو عذرات پیش کرنے کے لیے تین نومبر تک کا وقت دیا ہے۔گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر کی87 رکنی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اس معاملہ پر اپوزیشن جماعتوں نیشنل کانفرنس، کانگریس اور بعض آزاد اراکین نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا اور اس معاملہ پر ایوان میں بحث کا مطالبہ کیا۔واضح رہے کہ قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کوندر گپتا بی جے پی کے رہنما ہیں اور انھوں نے بھرے ایوان میں اعلان کیا کہ انھیں ہندوں کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کا رکن ہونے پر فخر ہے۔

اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی پر یہ معاملہ حاوی رہا اور اپوزیشن ارکان نے شدید ہنگامہ کیا۔ ہنگامے کی پاداش میں سپیکر نے نیشنل کانفرنس کے دو اراکین کو معطل کیا تو عمرعبداللہ نے اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔مسلم اکثریتی جموں کشمیر میں بھارتی آئین کی اس دفعہ کو ایک حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرسپریم کورٹ نے اس کے خاتمے کا فیصلہ سنایا تو کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بدل جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ1947 میں جو چھ ہزار ہندو خاندان ہجرت کر کے بھارت آئے تھے، ان کی تعداد اب چار لاکھ تک پہنچ گئی ہے، قانونی بندش ہٹ گئی تو ان چار لاکھ ہندوں کے ساتھ ساتھ تمام فوجی اہلکاروں اور افسروں کو تین سالہ تعیناتی کے بعد یہاں مستقل شہریت دی جائے گی۔واضح رہے عدالت نے مفتی سعید کی حکومت کو عذرات پیش کرنے کے لیے تین نومبر کا وقت دیا ہے، لیکن مفتی سعید ابھی تک اپنی شریک اقتدار بی جے پی کو دفعہ پینتیس اے کے دفاع پر آمادہ نہیں کرسکی ہے۔

اپوزیشن گروپوں، سماجی حلقوں اور علیحدگی پسندوں کو خدشہ ہے کہ حکمران بی جے پی کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کر کے یہاں ہندوں کی بھاری تعداد کو آباد کروانا چاہتی ہے اور اس کے لیے دفعہ 35A ہٹا کر راہ ہموار کی جا رہی ہے۔واضح رہے برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت پاکستان سے 60 ہزار ہندو مہاجرین بھارت آئے تھے، جنھیں جموں میں بسایا گیا۔ اس دفعہ کے ہٹنے سے ان مہاجرین کو مستقل شہریت دی جائے گی جن کی تعداد اب چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر آئین کی اس دفعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تو سابق فوجیوں کی کالونیوں کی بے تحاشا تعمیر شروع ہو جائے گی اور فوجی اہلکاروں کو بھی مسلسل تین سالہ تعیناتی کی بنیاد پر کشمیر کی شہریت دی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں فی الوقت بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت ہے۔ بی جے پی کی اسمبلی میں 25 نشستیں ہیں جبکہ مفتی سعید کی 28 نشستیں ہیں۔

مفتی سعید کشمیر کے مسلم تشخص کے بقا کی باتیں کرتے رہے ہیں اور انھوں نے اکثریتی آبادی کو قائل کرنے کے لیے پارٹی کا پرچم بھی سبز رنگ کا ہی طے کیا۔ لیکن یکم مارچ کو انھوں نے بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا۔مفتی سعید کے وزیرقانون بشارت بخاری کہتے ہیں: مجھے پورا یقین ہے کہ ہم یہ کیس جیت جائیں گے۔ ہم دفعہ 35A کا مکمل دفاع کریں گے۔

ابھی ایوان میں اس پر سیاست نہیں کی جا سکتی کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مفتی سعید کی حکومت سپریم کورٹ میں تنہا ہوگی ، یا بی جے پی اس کا ساتھ دے گی۔
ملعون سلمان رشدی بھی چپ نہ رہ سکا
بھارت میں گائے کے گوشت پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سلمان رشدی نے اِس کی ذمہ داری مودی کی خاموشی پر عائد کی ہے۔

بھارتی نژاد برطانوی ادیب سلمان رشدی نے ایک بھارتی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہندو انتہا پسندوں کے حالیہ حملوں پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی اِس بات کی غماز ہے کہ ایسے عیارانہ حملوں میں انسانی جانوں کا ضیاع جاری رکھا جائے۔ سلمان رشدی نے بھارت کا نیشنل ایوارڈ ایک ادیب کی ہندو بنیاد پرستوں کے ہاتھوں ہلاکت پر واپس بھی کر دیا ہے۔

دو درجن کے قریب مختلف کتابوں کے متنازعہ مصنف ملعون سلمان رشدی نے اپنے انٹرویو میں اِس صورت حال پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں سلمان رشدی نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت میں روزمرہ زندگی میں عیاری و مکاری سے انسانوں کو ہلاک کرنے کا پرتشدد رویہ جو سامنے آیا ہے، وہ یقینی طور پر ایک نیا رویہ ہے۔ اِس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی خاموشی نے بھی اِس نئے پرتشدد رویے کو تقویت بخشی ہے۔

رشدی نے بھارت کی نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز یا ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے رکھی گئی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی ادیبوں کی جانب سے صدائے احتجاج نہ بلند کرنے کو بھی حیران کن قرار دیا ہے۔نئی دہلی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سلمان رشدی نے گائے کے نام پر انسانی جانوں کے ضیاع کو نظرانداز کرنے پر وزیراعظم کے دفتر کی خاموشی پر بھی حیرت کا اظہار کیا۔

سلمان رشدی نے کہا کہ مسٹر مودی انتہائی باتونی شخص ہیں اور ہر موضوع پر بات کرنے کو کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں ان کی خاموشی اِن وارداتیوں کو اجازت فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ رشدی نے کہا کہ مودی کا اِس معاملے پر اگر کوئی ردعمل سامنے آتا ہے تو وہ ان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہو گا۔ رشدی کے مطابق بھارت میں عام آزادیاں یعنی اکھٹے ہو کر کسی کتاب یا خیال پر جمع ہو کر بات کرنے کے مثبت عمل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ رشدی کا انٹرویو ایسے وقت میں نشر کیا گیا جب سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی پاک بھارت تعلقات پر لکھی گئی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کرنے والے بھارتی شہری سودھیندر کلکارنی کے چہرے پر شیو سینا کے کارکنان نے سیاہی انڈیل دی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی بھی منافرت کی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے وزارتِ عظمی کے منصب تک پہنچے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں بھارت کے ہندو بیف یا گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ پوری قوت سے کر رہے ہیں۔


مودی کا دورہ کشمیر
متذکرہ بالا حالات کوپس منظر میں رکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کے دورہ کشمیر کوملاحظہ فرمائیں ۔ ریاست کشمیر کے حالات تو کبھی بھی پر امن رہے مگر جن دنوں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سے مقامی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے ان دنوں ریاست کی طوائف الملوکی نقطہ عروج پر ہوتی ہے ۔

گزشتہ اڑسٹھ سالوں سے بھارتی مسلمان 14اگست کو جشن آزادی اور 15اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ مناتے ہیں ۔ اسی طرح جب نیو دہلی سے کوئی بھارتی حکومتی اہلکار مقبوضہ ریاست کا دورہ کرتا ہے تو کشمیری مسلمان اس روز احتجاج کر کے بھارت کو اس کا وہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو اس نے اقوام متحدہ میں کیا تھا کہ وہ کشمیرمیں استصواب رائے کا اہتمام کرے گا اور کشمیروں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستان میں شامل ہوں یا بھارت کے ساتھ ہی رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورہ کا اعلان کیا تو حریت کانفرنس کی مرکزی قیادت نے اسی روز ملین مارچ کا اعلان کیا ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کے شیڈول میں شامل تھا کہ وہ سری نگر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے اور اس موقع پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے امداد کا اعلان بھی کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں جموں و کشمیر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے تقریبا سولہ ارب کا نقصان ہوا تھا۔

بھارت میں گائے کے گوشت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور مسلم اقلیت پر کیے جانے والے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی مسلم اکثریتی والی اس ریاست میں حالات کشیدہ ہیں۔مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسے ہی مودی کا دورہ کشمیر کا اعلان سامنے آیا، پولیس نے کئی علیحدگی پسند رہنماوں کو نظر بند کر دیا۔ اس موقع پر ہونے والے ملین مارچ کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے اجازت نہیں دی تھی یہی وجہ ہے کہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملین مارچ ہر صورت میں آگے بڑھے گا۔


کشمیر کی کشیدہ صورتحال
بھارتی وزیر اعظم کے دورہ سے ایک روز قبل مختلف چھاپوں کے دوران آٹھ سو سے زائد علیحدگی پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورے سے قبل قابض فوج نے مقبوضہ وادی کو قید خانے میں تبدیل کردیااور لاکھوں اہلکار صرف سرینگر کی اہم سڑکوں، گلی کوچوں میں تعینات کر دیے گئے تھے۔ کرفیو نافذ کر کے وادی کو سنسان کر دیا گیا جبکہ سری نگر میں کرکٹ اسٹیڈیم جہاں مودی نے خطاب کیا اس کی حفاظت کیلئے 10 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کئے گئے۔

گلیوں، سڑکوں پر ہر جانب فوج ہی فوج تھی جبکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کشمیریوں کیلئے اذیت سے کم نہ تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی بند کردیاگیا ۔ اسٹیڈیم کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں سخت سیکیورٹی پابندیاں نافذ کی گئیں اس کے باوجود جلسہ گاہ کے قریب ایک دھماکاہوا جس میں10 اہلکار زخمی ہوگئے ۔کٹھ پتلی حکومت نے جلسہ میں شرکت کے لیے سرکاری ملازمین پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہر صورت جلسہ میں شریک ہوں ۔

یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں سے کہا گیا کہ اگر وہ جلسہ میں شریک نہ ہوئے تو انہیں کام سے ہٹا دیا جائے گا۔مودی کے دورہ کو کامیاب بنانے کیلئے پورے سرینگر کی ناکہ بندی کردی گئی جبکہ شہر کے داخلی وخارجی راستے بھی بند رکھے گئے۔ مودی کے دورے سے قبل سیکیورٹی پابندیوں کے باعث کشمیر میں ریل سروس بھی معطل کر دی گئی اور تعلیمی و کاروباری سرگرمیاں بھی شدیدمتاثرہوئیں۔

حکومت نے یونیورسٹی سطح کے امتحانات اور نوکریوں کے لیے مجوزہ انٹرویوز بھی ملتوی کر دیئے جبکہ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ بی جے پی کی مقامی رہنما حنا بٹ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ تاریخی ہے اور مودی نے اہم اعلانات کئے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما علی محمد ساگر نے کہا کہ مفتی سعید کشمیر کو آر ایس ایس کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔

مودی کی خوشنودی کے لیے حکومت نے وادی کو عملا قید خانہ بنا دیاہے۔ حریت کانفرنس کے ملین مارچ سے خوفزدہ پولیس اور فوج نے حریت رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند اور جیلوں میں قید کر دیا جبکہ 300 سے زائد رہنماوں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ سرینگر میں پابندیوں کے باوجود ہزاروں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے پاکستان زندہ باد اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگائے ۔

بھارتی وزیر اعظم کے دورہ کے موقع پر ہفتے کو روز کشمیریوں نے سیاہ غبارے ہوا میں چھوڑ کر احتجاج کیا جبکہ رکن مقبوضہ کشمیر اسمبلی انجینئر عبدالرشید نے بھارتی وزیر اعظم کی آمد پر سیاہ پرچم لہرا دیا جس پر عبدالرشید کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ہفتے کے مقبوضہ وادی میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس کو بھی معطل کر دیا گیا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔


بھارتی وزیر اعظم کے دورہ کشمیر سے یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اور دہلی سرکار کے کسی بھی ترقیاتی پیکج یا خوش کن اعلانات سے خوش ہونے والے نہیں۔ بلکہ کشمیری عوام بھارتی استبداد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔بھارت کیلئے یہ مقام فکر ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے وہ کشمیریوں کے جذبات کا ادراک حاصل کر لے بصورت دیگر بھارت میں قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوپائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :