
میڈیا کے اختلافات …مضمرات وخطرات
ہفتہ 31 مئی 2014

زبیر احمد ظہیر
(جاری ہے)
تخریب سب سے آسان کام ہے ،برسوں کی محنت پل بھر میں اکارت ہوجاتی ہے ۔میڈیا اس وقت تخریب کاری پر اتر آیا ہے ۔اور سب کی کوشش ہے کہ کسی طرح دوسرے اداروں کو بند کروادیا جائے ۔پاکستان سب کا ہے ،کوئی کسی کو ملک سے نہیں نکال سکتا ،مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو ملک سے باہر نکال دیا جائے،ٹی وی اینکر اداروں کو بند کرانے اور نفرت کی علامت بنانے پر تلے بیٹھے ہیں ۔پاکستان کی صحافتی تاریخ میں مالکان ہمیشہ ایک رہے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ مالکان ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے ہیں ۔وہ صحافی جو برسوں سے اپنے حقوق غصب کروابیٹھے ہیں ۔ان کے لیے مالکان کو نیچا دکھانے کا یہ اہم موقع ہاتھ آیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شرفاء کی شان نہیں ۔اس لیے ہم کسی انتقام کے قائل نہیں ۔تمام عامل صحافی بھی اس موقع پر میڈیا کی جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کے میڈیا کاوقار مزید مجروح نہ ہو، پاکستان کے میڈیا نے فوج کے بعد ایک مکمل مضبوط ادارے کی شکل دھار لی تھی ۔اور یہ بات خوش آیند تھی مگر جب میڈیا کے ادارے کو اپنی اہمیت جتلانے کا پہلا موقع ہاتھ آیا تھا ۔تب میڈیا کا شیرازہ بکھر گیا ۔اور یوں اب پاکستان میں ایک ہی مضبوط ادارہ فوج باقی رہ گیا ہے ۔نظم ونسق کے لحاظ سے فوج کے ادارے نے اپنی اہمیت ہمیشہ ہی برقرار رکھی ہے ۔فوج بھی ہماری ہے ہے اور ادارے بھی سب ہمارے ہیں ۔غلط فہمیاں بھائیوں میں بھی جنم لیتی ہیں ۔اور انہیں ختم بھی کیا جاتا رہتا ہے ۔غلط فہمیوں کا یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی دراز ساہوگیا ہے ۔جس کی وجہ سے کشیدگی میں شدت آگی ہے ۔اصل معاملہ ساکھ کا ہے ۔کسی بھی ادارے کی ساکھ اربوں کھربوں روپے کی ہوتی ہے اور ساکھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔فوج کو بھی ساکھ کا صدمہ گائل کرگیا ۔جہاں تک الزامات کا تعلق ہے الزامات تو کسی قابل ادارے پر ہی لگتے ہیں ۔یہ الزامات اسے سچا کھرا ثابت کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ بظاہرہر منفی کام میں بھی مثبت کام چھپا ہوتا ہے ،فوج پر الزامات کے بعد عوامی سطح پر فوج کی جتنی ساکھ اب مضبوط ہوئی ہے ۔اس کا ماضی قریب میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا ۔ان مثبت باتوں کو اہمیت دی جائے ۔جب کوئی شخص کسی عدالت سے بری ہوتا ہے تو سچائی کی عدالتی سند میں اس شخص کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے جو الزام دے کر اس شخص کو عدالت تک گھسیٹ لاتا ہے ۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ جنگ اور جیو نے بھی فوج کو عوامی عدالت میں سرخرو کردیا ہے ۔جس سے زیادہ محبت ہوغصہ بھی اس ہی پر زیادہ آتا ہے ۔پاکستان کی فوج سے سب کوزیادہ محبت ہے ۔اور غلط فہمی پر غصہ آجانا بھی فطری ردعمل ہے ۔اب یہ محاذآرائی ختم ہوجانی چاہیے ۔حکومت دونوں بڑے اداروں میں غلط فہمیوں کی جنگ ختم کرانے میں اپنا کردار ادار کرے ۔طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان دو بڑے ادار وں میں مذاکرات اور افہام و تفہیم کیوں نہیں ہوسکتی ۔غلطیاں بری نہیں غلطیوں پر ڈٹ جانا برا ہے ۔مزید غلطیوں پر غلطیاں کیے جانا اچھی روایت نہیں ۔
صحافی تو قوم کے دانشور ہوتے ہیں ۔دانشوروں کی لڑائی کا تماشہ قوم روز دیکھ رہی ہے ۔پڑھے لکھے اشخاص جنگ نہیں کرتے ۔صرف اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔بڑوں کی لڑائی میں چھوٹوں کی شامت آگئی ہے ۔میڈیا نے بھی اس جنگ میں اپنی اربوں کھربوں روپے کی ساکھ پانی کی بجائے ریگستان میں ڈبودی ہے ۔ساکھ کو کبھی بھی روپوں پیسوں میں تولا نہیں جاتا ۔ساکھ اعدادوشمارکی گنتی اور ماپ تول سے بالا تر ہوتی ہے ۔اسے گنا نہیں جاتا ۔صحافتی اداروں میں جنگ نے میڈیا کی ساکھ اتنی محروح کردی ہے کہ پہلے خبر کو سچ سمجھاجاتا تھا اب الیکڑانک میڈیا کے اداکاروں نے اسے بھی اداکاری کی صنف بنا دیا ہے ۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ میڈیا پر عوام کا اعتماد دن بدن کم ہوتا جارہا ہے ۔خبر پہلے غیر جانبدار ہوتی تھی اب یہ اداروں کی پالیسی کے تابع ہوچلی ہے ۔خبر جب غیر جانبدار نہ رہے وہ خبرنہیں رہتی۔فلم ڈرامہ بن جاتی ہے ۔کیا پاکستان کا الیکڑانک میڈیا عوام کو خبروں کے نام پر ڈرامے دکھانے پر تلا ہے ۔اس سوال کا جب تک جواب نہیں ڈھونڈا جاسکتا تب تک میڈیا کی ساکھ بحال نہیں ہوگی ۔میڈیا اپنی ساکھ کی بھی فکرکرے کہیں عوام ڈرامے بازی بیزارنہ ہوجائے ۔بنگلہ دیش جب پاکستان سے الگ ہوا تو اسے پٹ سن کی پیدوار پر غرور تھا جب اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی تب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دنیا بھر میں پٹ سن کی مانگ ہی ختم ہوگئی ۔پلاسٹک نے پٹ سن کو بے کار چیز بنا دیا ۔میڈیا بھی بنگلہ دیش کے غرور سے سبق حاصل کرے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زبیر احمد ظہیر کے کالمز
-
ہائے․․․․․ مجھے بچاؤ
بدھ 24 اپریل 2019
-
انقلاب آزادی مارچ …سیاسی انتہاپسندی کا طوفان
پیر 8 ستمبر 2014
-
پاک بھارت تعلقات…اسلام آباد دھرنوں سے خراب
منگل 2 ستمبر 2014
-
آزادی مارچ…یا… اقتدار کا لالچ؟
منگل 19 اگست 2014
-
مودی کا جنگی جنون…مارنے کو ہے شبخون
جمعرات 14 اگست 2014
-
عالمی لینڈمافیا بمقابلہ نہتے غزہ کا المیہ
اتوار 20 جولائی 2014
-
مہاجرین کی مدد کیجئے…رمضان کا ثواب پالیجئے
اتوار 6 جولائی 2014
-
سانحہ ماڈل ٹاؤ ن…قصور وار کو ن؟
جمعرات 26 جون 2014
زبیر احمد ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.