کراچی میں ہنگامہ آرائی حکومت کے طے شدہ پروگرام کے تحت ہوئی سند ھ حکومت کی جانب سے صوبہ بدر ی کے احکامات سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے حکومتی شخصیات سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں کیا کراچی جانے کیلئے کسی ویزے کی ضرورت ہے کراچی میں تشدد اور چیف جسٹس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے معاملے کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے چیف جسٹس کے وکلاء منیر اے ملک چوہدری اعتزاز احسن جسٹس (ر) کی پریس کانفرنس

اتوار 13 مئی 2007 18:34

اسلام آباد(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار13 مئی2007 ) چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکلاء نے کہا ہے کہ کراچی میں ہنگامہ آرائی چیف جسٹس کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت کے طے شدہ پروگرام کے تحت ہوئی کراچی میں خون خرابے کے وقت آئی جی سندھ اور ہوم سیکرٹری ایئر پورٹ لاؤنج میں بیٹھے مزے سے چائے اور سگریٹ پیتے رہے جو قابل شرم اقدام ہے سند ھ حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے وکلاء کوصوبہ بدر کرنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے جنرل مشرف قوم سے معافی مانگیں حکمران سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں وکلاء کی تحریک کو ایک تو کیا دس جرنیل بھی روک نہیں سکتے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے کراچی میں تشدد اور چیف جسٹس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے معاملے کا سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے اتوار کو یہاں چوہدری اعتزاز احسن جسٹس (ر) طارق محمود علی احمد کرد کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے صدر اور چیف جسٹس کے وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ ہفتہ کو جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمدچوہدری کے ساتھ جب ہم کراچی ائیرپورٹ پر پہنچے توانتظامیہ کی طرف سے چیف جسٹس کو ایک ہیلی کاپٹر میں ڈال کرسندھ ہائی کورٹ لے جانے کی کوشش کی گئی اور اس دوران چیف جسٹس کے ساتھ کھینچا تانی کی گئی لیکن ہم وکلاء نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا اور انہیں ارائیول لاؤنج میں لے گئے جبکہ اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ کے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کربند کردیا گیا جس پر سندھ ہائی کوئی کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام راستوں کو کھول دیا جائے اور چیف جسٹس کی سندھ ہائی کورٹ آمد کویقینی بنایا جائے لیکن اس کے باوجود راستے نہیں کھولے گئے انہوں نے کہاکہ ہم نے کراچی ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد اپنے میزبانوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمار ے استقبال کے لئے پہنچنے والے ہیں لیکن جلد ہی ہمیں اطلاعات ملی کہ کراچی میں بیروت جیسی صورتحال ہوگئی ہے اوروکلاء کی پکڑدھکڑ اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے منیر اے ملک نے کہاکہ اس دوران ہمارے موبائل فون بھی جام ہوجاتے رہے جس کی وجہ سے ہمیں رابطوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑا انہوں نے کہاکہ کراچی کی صورت کا سن کرچیف جسٹس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک طرف سے شہر جل رہا تھا تو دوسری طرف آئی جی پولیس سندھ اور ہوم سیکرٹری سندھ ایئرپورٹ لاوٴنج میں مزے سے بیٹھے ہوئے چائے اور سگریٹ پیتے رہے تاکہ چیف جسٹس باہرنہ نکلیں انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس ملیر بار پیدل جانے کے لئے بھی تیار تھے منیر اے ملک نے کہاکہ جب ہمیں سندھ حکومت کی طرف سے نوٹس ملا کہ چیف جسٹس کے وکلاء کو صوبہ بدر کیا جاتا ہے تو ہم نے اپنے دوستوں کی مشاورت کے بعدفیصلہ کیا چیف جسٹس کو تنہانہ چھوڑا جائے جبکہ چوہدری اعتزاز احسن نے بھی کیس کی تیاری کرنی تھی اس لیے انہیں بھی واپس آنا تھا لہذا ہم نے ائیرپورٹ سے ہی واپسی کاپروگرام طے کرلیا انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس کے وکلاء کو صوبہ بدر کرنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چلینچ کیا جائے گا (آج)پیر ملک بھر میں وکلاء ہڑتال کر رہے ہیں جبکہ (کل)منگل کو اس سلسلے میں پیٹشن دائر کریں گے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے چوہدری اعتزازاحسن نے کہاکہ کراچی کی صورتحال حکومت کی خود پیدا کردہ ہے چیف جسٹس کاپروگرام انتہائی سادہ تھا انہوں نے کہاکہ وہ چیف جسٹس کے وکیل ہیں اور وہ پارٹی سے ہٹ کر چیف جسٹس کی وکالت کررہے ہیں اور انہیں وکیل ہونے پر فخر ہے  انہوں نے کہاکہ کراچی میں حکومت کا محاذ آرائی کرنے کا پہلے سے پروگرام تھا انہوں نے کہاکہ میڈیا میں اگر ایم کیو ایم کے چار لوگوں کے جنازے دکھائے جارہے ہیں اور اگر وہ ناحق ہلاک ہوئے ہیں توہمیں بھی افسوس ہے لیکن باقی 32لوگ کیسے ہلاک ہوئے وہ کن ماؤں کے بیٹے تھے ایم کیو ایم کراچی میں حکومت کی آلہ کار بنی ہے چیف جسٹس کراچی کو چھوڑ کر باقی کئی علاقوں میں گئے ہیں لیکن وہاں معمولی تصادم بھی نہیں ہوا فرق یہ ہے کہ کراچی میں ایک جماعت اضافی تھی جو ایم کیو ایم ہے اگر کسی اورسیاسی جماعت نے ہنگامہ آرائی کرنا ہوتی تو یقینا اس سے قبل بھی چیف جسٹس نے دیگر بار ز سے خطا ب کیا اس دوران کردیتی انہوں نے کہاکہ کراچی ایم کیو ایم کا ہی شہر نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کا شہر ہے اس لئے ہم ایم کیو ایم یا کسی دوسرے سے خوف زدہ ہوکر کراچی جانا چھوڑیں گے نہیں انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہمیں کراچی جانے کیلئے کسی ویزے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا چیف جسٹس کے دوبارہ کراچی کے دورے کے بارے میں وکلاء کی مشاورت اور کراچی بار کی طرف سے دعوت کے بعد ہی کیا جائے گا اعتزاز احسن نے کہاکہ جنرل مشر ف ،چوہدری پرویز الہی اور دیگر حکومتی عہدے داروں کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف بیانات سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور مجھے تو سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق پر پہلے یہ تحفظات تھے اور اگر اب سپریم کورٹ حکومت سے اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل دراآمد نہیں کرواتی تو پھر سب کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اس ایشو پر تبصر ے کرے انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیا سپریم کورٹ پرویز مشرف پرویز الہٰی بابر غوری اور الطاف حسین کے بیانات پر سوموٹو ایکشن لیتی ہے یہ امتحان ہے انہوں نے کہاکہ کراچی میں وکلاء کا فنکشن پیشہ وارانہ تھا اوریہ حکومتی الزام کہ چیف جسٹس کے لینڈ کرنے کے بعد کراچی میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی بالکل غلط ہے ہمارے جہاز کے لینڈ کرنے سے قبل ہی چار افراد مارے جاچکے تھے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے آج تک کوئی سیاسی بیان نہیں دیا اورنہ ہی کبھی ریفرنس بارے کوئی بات کی انہوں نے کہاکہ اگر تیرہ مارچ کو اسلام آباد میں چیف جسٹس کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی کے خلاف کاروائی کی جاتی تو یقینا کراچی میں دوبارہ یہ واقعہ پیش نہ آتا انہوں نے کہاکہ جنرل مشرف ٹی وی چینل سے تو معافی مانگ سکتے ہیں تو پھر چیف جسٹس سے بھی معافی مانگنی چاہیے تھی اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کے استقبال کیلئے کبھی سیاسی جماعتوں کو نہیں بلایا بلکہ وہ خود ہی آ جاتے ہیں تاہم اگر وہ آتے بھی ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ عدلیہ کی آزادی کیلئے سیاسی جماعتوں کا حق بنتا ہے کہ وہ بھی وکلاء کا ساتھ دیں ۔

علی احمد کرد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور وکلاء برادری نے عدالتی نظام کے تقدس کو بچانے کیلئے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور عوام نے بھی اس تحریک میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دو ماہ میں ہماری تحریک کو بہت مقبولیت مل گئی ہے اور یہ پاکستان کی سب سے بڑی معرفت اعلیٰ تحریک ہے جس نے ایک جنرل کو للکارا ہے انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جنرل مشرف اور ان کے حامیوں نے کراچی میں تصادم کرائے تاکہ اس تحریک کو نقصان پہنچایا جاسکے مگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے چیف جسٹس کی وجہ سے تصادم ہوتے تو اس سے پہلے پانچ بارز سے چیف جسٹس سے خطاب کیا اسلام آباد سے لاہور تک کا طویل دورانیہ سفر کیاکئی گنجان آباد علاقوں میں گئے ایک پتہ بھی نہ گرا انہوں نے کہا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے انہوں نے کہا کہ ایک طرف سندھ میں خون خرابہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف آئی جی سندھ اور ہوم سیکرٹری ایئر پورٹ پر بیٹھے مزے سے چائے اور سگریٹ پی رہے ہیں جس پر انہیں شرم آنی چاہیے آج نااہل اور لاپرواہ لوگ ہماری حکمرانی کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک جنرل تو کیا دس جرنیل بھی ہماری تحریک کو نہیں روک سکتے اس موقع پر جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف تو کراچی میں نوجوانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگا دیا گیا اور دوسری طرف اسلام آباد میں جشن منایا گیا انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال کے پیش نظر جنرل مشرف کو اسلام آباد میں فنکشن ملتوی کر دینا چاہیے تھا انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف آئینی اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ملک کے آئین کو توڑنے والے بڑے آدمی نہیں ہوتے انہوں نے کہا کہ آئینی لحاظ سے جنرل مشرف قوم کے غلام ہیں اور وہ غلام بن کر ہی رہیں حکمران نہ بنیں ۔