مشرف کے 9 مارچ کے اقدامات او ر عوامی حمایت سے محرومی  مسئلہ کشمیر کے حل کاسنہری موقع ضائع ہوگیا رپورٹ،تین سال تک جاری رہنے والے اعلیٰ سطحی رابطوں کے باوجود عین وقت پر بریک تھرو نہ ہوسکا،حکومت پاکستان اور فوج بھارت کے خلاف رویہ میں تبدیلی پر متفق ہیں  واشنگٹن پوسٹ

اتوار 22 فروری 2009 19:20

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22فروری۔2009ء) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 9 مارچ 2007ء کے اقدامات او ر عوامی حمایت سے محرومی کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کر نے کا ایک سنہری موقع ضائع ہوگیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تین سال تک جاری رہنے والے اعلیٰ سطحی رابطوں کے باوجود عین وقت پر بریک تھرو نہ ہوسکا جبکہ ممبئی دھماکوں کے بعد اس ضمن میں ہونے والی تمام تر پیشرفت پر مزید پانی پھر گیا ۔

یہ انکشاف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے سابق منیجنگ ایڈیٹر سٹیو کال نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کیا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004ء میں مسئلہ کشمیر حل کر نے کیلئے بات چیت کا آغاز ہوا ۔کیونکہ یہ مسئلہ 1947ء سے دونوں ملکوں کے فلش پوائنٹ چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں ۔

(جاری ہے)

اپنی یادداشتوں پر مشتمل آرٹیکل میں سٹیو کال نے یہاں تک لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سمجھوتے کامسودہ تیار ہوچکا تھا جس میں صرف چند کومے ہی تبدیل ہوسکتے تھے ۔

دنیا بھر کے مختلف ہوٹلوں میں انتہائی اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں درپیش رکاوٹیں دور کی گئیں لیکن سابق صدر عوامی حمایت سے محرومی کے باعث اس کا اعلان نہ کر سکے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس سمجھوتے میں بہت سے امور کا احاطہ کیا گیا تھا لیکن مسئلہ کشمیر اس کی بنیاد تھا جس کے حل سے پاکستان اور بھارت کے تعلق بہت بہتر ہوسکتے تھے اور وہ کئی عشروں سے جاری ایک دوسرے سے خوف کی فضا سے باہر آسکتے تھے اس منصوبے کے تحت کشمیر کے دونوں حصوں میں عوام کی آمدورفت بالکل آزادانہ بنائی جاتی اور وسیع پیمانے پر تجارت کی جاتی وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ یہ سرحد بالکل ختم ہو جاتی اور تشدد میں کمی کے نتیجے میں بھارت بتدریج اپنی فوجیں واپس بلاسکتا تھا ۔

ایک بھارتی افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جب اسے ان واقعات کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے اسے بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا اور کہاکہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔ان مذاکرات کیلئے دو درجن سے زائد ملاقاتیں ہوئیں اور دستاویز تیار کی گئی۔اگرچہ کسی کے دستخط اور نام نہیں تھے لیکن اسے بنیاد بنایا جاسکتا تھا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں بھی ان مذاکرات سے آگاہ تھے لیکن انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کو ہی حل کر نا او روہ صرف حمایت کا کر دارادا کرسکتے ہیں ۔

کیونکہ خطرہ تھا کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نے کھل کر کر دارادا کیا تو دونوں ملکوں پارلیمنٹس شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں گی ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کو افشا کر نے کے بارے میں سوچا جارہا تھا کہ مشرف کو کچھ وقت کیلئے تاخیر پر مجبور کیا گیا اور مارچ 2007ء میں جب مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس کو ہٹایا تو ان کے خلاف ایک نا ختم ہو نے والا مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ مشرف کی سیاسی موت تک جا پہنچا اور جب مشرف مستعفی ہو ئے تو مقبوضہ کشمیر میں مزاحمتی تحریک تیز ہوگئی جو اس بات کا پیغام تھا کہ مشرف چلے گئے ہیں لیکن تحریک زندہ ہے ۔

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اگرچہ اطلاعا ت کے مطابق ممبئی حملوں کے ملزمان کو کیفر کر دار تک پہنچانے کیلئے پاکستان اوربھارت کے خفیہ ادارے ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں اور سی آئی اے ان کے درمیان ثالث کا کر دا ر ادا کررہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی حکومت چاہتے ہوئے بھی کشمیر پر مذاکرات بحال نہیں کر اسکی اور یہ آسان بھی نہیں ۔ایک پاکستانی سینئر افسر کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان اور فوج اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ بھارت کے خلاف رویہ تبدیل کیا جائے لیکن عوام کا موڈ سمجھ سے بالا تر ہے ۔