نوازشریف اور اسحاق ڈار عدالت کیخلاف جاری ہرزہ سرائی مہم کے سربراہ ہیں، جسٹس شیخ عظمت سعید

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ، نواز شریف عدلیہ پر اعتماد کریں سڑکوں پر نہیں، پانامہ کیس میں نیب بطور ادارہ فیل ہو چکا تھا ، کیا عدلیہ اور پاکستان کو بھی نیب کے ساتھ فیل ہوجانا چاہیے تھا ، ادارے ناکا م ہو جائیں تو ریاست فیل ہوجاتی ہے، نواز شریف ، اسحاق ڈار کی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس ماضی میں جب بھی نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے اسے عدالت عظمیٰ نے ریسکیو کیا ، سپریم کورٹ ہر شہری کے حقوق کی محافظ ہے ، نواز شریف کے ساتھ ٹرائل کورٹ میں زیادتی ہوئی تو وہاں سے بھی ریسکیو کریں گے، جسٹس آصف سعید کھوسہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے ، جسٹس اعجاز افضل درخواست گزار کی خواہش ہے ریفرنس کا معاملہ چیئرمین نیب پر چھوڑ دیا جائے جبکہ چیئرمین نیب کی جانب داری پر تمام ججز پہلے لکھ چکے ، جسٹس اعجاز الاحسن نااہلی اور الیکشن کو کالعدم قرار دینا دو الگ الگ معاملات ہیں، اگر اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک مدت کیلیے ہوتی ہے ، نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہوتا ہے، ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتاہے، خواجہ حارث ، سماعت آج پھر ہوگی

جمعرات 14 ستمبر 2017 16:33

Nاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 ستمبر2017ء) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس فیصلے کیخلاف نواز شریف اور اسحاق ڈار کی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نوازشریف اور اسحاق ڈار عدالت کیخلاف جاری ہرزہ سرائی مہم کے سربراہ ہیں ،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ، نواز شریف عدلیہ پر اعتماد کریں سڑکوں پر نہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ پانامہ کیس میں نیب بطور ادارہ فیل ہو چکا تھا ، کیا عدلیہ اور پاکستان کو بھی نیب کے ساتھ فیل ہوجانا چاہیے تھا ، ادارے ناکا م ہو جائیں تو ریاست فیل ہوجاتی ہے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں جب بھی نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے اسے عدالت عظمیٰ نے ریسکیو کیا ، سپریم کورٹ ہر شہری کے حقوق کی محافظ ہے ، نواز شریف کے ساتھ ٹرائل کورٹ میں زیادتی ہوئی تو وہاں سے بھی ریسکیو کریں گے ، چیئرمین نیب نے بھری عدالت میں کہا جو کرنا ہے کر لیں ہم کچھ نہیں کر سکتے ، نگران جج مقرر نہ ہوتا تو ریفرنسز بھی دائر نہ ہوتے ، نگراں جج کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں ہے احتساب عدالتوں کے لیے بھی نگراں جج ہوتے ہیںجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے جبکہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے اب ہم یہ کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درخواست گزار کی خواہش ہے ریفرنس کا معاملہ چیئرمین نیب پر چھوڑ دیا جائے جبکہ چیئرمین نیب کی جانب داری پر تمام ججز پہلے لکھ چکے ہیں ،چیئرمین نیب کی جانبداری واضح ہونے پر نگران جج مقرر کیا ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پاناما کیس کی نظرثانی درخواستوں پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ، دوران سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نااہلی اور الیکشن کو کالعدم قرار دینا دو الگ الگ معاملات ہیں، اگر اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک مدت کیلیے ہوتی ہے جب کہ نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہوتا ہے اور ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتاہے۔

آرٹیکل 62 کادائرہ کار بڑا وسیع ہے، 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کے علاوہ آرٹیکل 76اے اور 78کی نسبت 62ون ایف کے اثرات زیادہ سنگین ہیں، نوازشریف کو اقامہ اور تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا، لفظ اثاثہ کے ایک سے زیادہ معنی اورتشریح ہے، نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھاانہوں نے تنخواہ کو اثاثہ نہ سمجھنے کے باعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے جبکہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا اس پرجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے جبکہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے اب ہم یہ کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے۔

عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں ۔ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا جب کہ دستاویزات کیمطابق طریقہ کار کے تحت نوازشریف نے اکاؤنٹ کھولا ہے اس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے اور دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 کو تنخواہ بھی آئی، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی چیز کو ناقابل تردید سچ نہیں کہہ رہے آپ جے آئی ٹی رپورٹ میں کمی یا کوہتاہیاں ٹرائل کورٹ میں اٹھائیں، احتساب عدالت میں گواہیاں اور جرح ہو گی، کیا آپ استدعا کررہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو دوبارہ زندہ کرکے رپورٹ مکمل کرنے کا کہیں آپ چاہتے ہیں کہ ریفرنس کا معاملہ بھی ہم چیرمین نیب پر چھوڑ دیتی آپ چیرمین نیب کا بیک گراونڈ اور کنڈکٹ بھی ذہن میں رکھیںاس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نیب کو قانون کے مطابق تحقیقات کاحکم دے سکتی ہے، آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس دائرکرنیکاحکم دیاجس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بچہ کوئی نہیں ہے وہ سب بچوں والے ہیں دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر نیب کام کرتا تو کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا، ہر جج نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے اور عدالت نے فیصلے میں لکھا، سب جانتے ہیں کہ کیا کیا ہوا دوہرانا نہیں چاہتا کیا آپ چیئرمیں نیب کے وہ الفاظ بھول گئے کہ جو کرنا ہے کر لیں ہمیں کچھ نہیں کرنا ، نیب کے چیئرمین نے بھری عدالت میں اپنی ناکامی کااعتراف کیا ، نگران جج نہ ہوتا توریفرنس بھی فائل نہیں ہوتا جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پانامہ کیس میں نیب بطور ادارہ ناکام ہوا ،کیا ریاست بھی نیب کے ساتھ ناکام ہوجاتی ،کیا آپ چاہتے ہیں پاکستان اور عدلیہ بھی نیب کے ساتھ فیل ہو جائیں ،نیب کا فیلیئر بھری عدالت میں ثابت ہوا ۔

،جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کبھی کسی کوملزم نامزدکرکے مقدمہ اندراج کانہیں کہاعدالت صرف حکم دیتی ہے کہ تحقیقات کی جائیں اور قصوروار کے خلاف مقدمہ کیاجائے جس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 9سی کاکیس ہمیشہ ہی نامزدملزمان کے خلاف ہوتا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ایک دن میں جے آئی ٹی رپورٹ پر ریفرنس فارغ ہوجائے گاجس پرعدالت نے واضح کیا کہ پھر مسئلہ کیا ہے جائیں اور فارغ کروائیں لیکن مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو پیغام دیدیں کہ کیس موخر نہیں کیاجائے گا ، دوران سماعت نواز شریف کے وکیل نے پاناما لیکس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نگراں جج کی تقرری اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ مخصوص ٹرائل کی نگرانی کے لیے کبھی جج تعینات نہیں کیا گیاصرف نگراں جج ہوتے ہیں لیکن مخصوص کیس کے لیے تعیناتی نہیں ہوتی صرف مانیٹرنگ ہوتی ہے ،سپروائزری نہیں ہوتی اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نگراں جج کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں ہے احتساب عدالتوں کے لیے بھی نگراں جج ہوتے ہیں ، جسٹس کھوسہ نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں نگراں جج تعینات کیا گیاجب کہ پنجاب کی انسداددہشت گردی عدالت میں نگراں جج لگایا گیا جبکہ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت کو نامکمل تحقیقات پر درخواستیں مسترد کرنی چاہیے تھیں، عدالت نیب کو قانون کے مطابق معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دے سکتی تھی، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد رپورٹ مکمل تصور ہوگی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا ہماری ہدایات سے احتساب عدالت میں کیس پر اثر ہوتا ہے، عدالتی آبزورویشن آپکے راستے میں نہیں آئے گی، ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ کرسکتی ہے اور اپنا نتیجہ اخذ کرسکتی ہے۔ خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ جے آئی ٹی پر سوال اٹھائے گئے تو ٹرائل کورٹ آپکا حکم دکھا دے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آپ چاہتے ہیں کہ معاملہ نیب کے سپرد کر دیں، چیئرمین نیب نے جو عدالت میں کہا وہ ہمیں معلوم ہے، تمام ججز نے اس معاملے پر کھل کر رائے دی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا نیب خود کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا، ہمیں اندیشہ تھا کہ چیئرمین نیب اسپانوی زبان میں ریفرنس دائر نہ کر دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا عدالت نے فیصلے میں محتاط زبان استعمال کی۔ خواجہ حارث نے کہا عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا بادی النظر کی جگہ پھر ہم کیا لکھتے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہم کہہ دیتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی سفارشات عبوری ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ ہماری آبزوریشن سے متاثر نہ ہو۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت کو تشویش ہے کہ چیئرمین نیب کچھ نہیں کرنا چاہتے، سپریم کورٹ کئی مقدمات میں چالان ٹرائل کورٹ میں دائر کرنے کا کہہ چکی ہے۔خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا ایسی کوئی مثال نہیں جہاں عدالت نے شخصیت پر مبنیٰ ہدایات دی ہوں، عدالت نے سب بچوں اور بڑوں کے نام دے دیئے ہیں۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا بچے بالغ ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا نیب کو اختیار دیتے اگر کیس بنتا ہے تو ریفرنس دائر کرے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ چیئرمین نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا اختیار دے د یں، چیئرمین نیب کی جانبداری پر عدالت کہہ چکی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا عدالت نے 6 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی اور قانون میں 1 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا لکھا ہے۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہم نے تو 5 ماہ زیادہ دے دیئے ہیں۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا ٹرائل کورٹ میں تو 2 سال تک مقدمے چلتے ہیں، عدالت کروائے تو 30 دن میں ٹرائل مکمل کروائے، دوسال بعد ملزمان کی ضمانت کی درخواست سپریم کورٹ میں آتی ہے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔عدالتی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ شکائیت کنندہ بن گئی ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا احتساب عدالت میں آپ جے آئی ٹی کے اراکین پر جرح کرسکتے ہیں، ہم لکھ دیتے ہیں کہ ہماری آبزرویشن اثرانداز نہیں ہوگی۔

خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا میرے موکل کا حق ہے کہ اسے فیئر ٹرائل ملے اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ نہ کہیں کہ سپریم کورٹ مدعی بن گئی ہے ،ماضی میں نواز شریف کے مقدمات سپریم کورٹ آتے رہے اور ریلیف بھی یہیں سے ملی ، جب نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے تو عدالت نے ریسکیو کیا ، ٹرائل کورٹ میں زیادتی ہوئی تو عدالت عظمیٰ وہاں سے بھی ریسکیو کرے گی ، عدالت ہر شہری کے حقوق کی محافظ ہے ، اس پر جسٹس عظمت سعید نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ہم پر یقین کریں سڑکوں پر نہیں ۔

خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا ریفرنس دائر کرنے کا حکم قانونی بنیاد پر نہیں دیا گیا، عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا گیا، قانونی اعتراض کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے، کیا اسحاق ڈار اگر اپنے کسی ماتحت کو تھپڑ مار دے تو وہ معاملہ بھی یہاں آئے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جن نقاط پر نظر ثانی چاہیے اسکی نشاندہی کریں، احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام لگے تو ٹرائل کورٹ کو بتا دیں، 90 لاکھ کے اثاثے بڑھ کر 990 لاکھ کے ہوگئے، جو خطوط اسحاق ڈار نے لگائے ان میں خلیفہ کا نام غلط ہے۔

اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے کہا اثاثوں میں اضافہ 15 سالوں میں ہوا۔ جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا جو جواب نیب کو دینا ہے وہ آپ یہاں دے رہے ہیںاس پر شاہد حامد نے کہا 20 اپریل کے فیصلے میں میرے موکل کے خلاف تحقیقات کی کوئی ہدایت نہیں تھی، جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کر کے مینڈیٹ سے تجاوز کیااس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ مقدمے میں فریق تھے آپ چاہتے ہیں کہ معاملے میں آنکھیں بند کر لیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اسحاق ڈار نے جو اعترافی بیان دیا اسکو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ اعترافی بیان کی کوئی حیثیت نہیںاسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کیخلاف میڈیا اور سڑکوں پر ہرزہ سرائی کی مہم چل رہی ہے ،اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ بات مت کریں ، عدلیہ کیخلاف ہرزہ سرائی کی مہم کو آپکا اور خواجہ حارث کا موکل چلا رہا ہے، نواز شریف اور اسحاق ڈار عدلیہ کو بدنام کرنے کی مہم کولیڈ کر رہے ہیں ،جیسا کرو گے پھر ویسا بھروگے۔

عدالت نے پاناما فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت آج جمعہ تک کے لئے ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ نظر ثانی اپیلوں پر نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں اور آج اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بچوں کے وکیل اپنے دلائل دیں گے ۔