سندھ پولیس ایکٹ2018 کے مسودے سے متعلق قائم کمیٹی کا اجلاس

پولیس رولز میں ترامیم کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دینے اور محکمہ داخلہ کے وزیر کو زیادہ با اختیار بنانے کا فیصلہ آئی جی سند ھ کے اختیارات کم کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔حکومت کی کوشش ہے کہ سب کا وقار برقرار رہے،سہیل انور سیال کراچی میں اسلحے کے بڑے ڈپو موجود ہیں ،سندھ حکومت اگر میرے اختیارات میں کمی کررہی ہے تو اس بارے میں مجھے علم نہیں ہے ،آئی جی سندھ

بدھ 25 اپریل 2018 20:43

سندھ پولیس ایکٹ2018 کے مسودے سے متعلق قائم کمیٹی کا اجلاس
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اپریل2018ء) سندھ پولیس ایکٹ2018 کے مسودے سے متعلق قائم کمیٹی کا اجلاس بدھ کو سندھ اسمبلی بلڈنگ میں وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال اور وزیر قانون ضیاء الحسن لنجا ر کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں آئی جی سندھ ،سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان اور دیگر نے شرکت کی ۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں سندھ پولیس رولز میں تبدیلی کے حوالے سے مشاوت کی گئی ۔

سیکرٹری داخلہ سندھ نے پولیس رولز میں تبدیلی کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ دی ۔اجلاس میں پولیس رولز میں ترامیم کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔کمیٹی میں آئی جی سندھ ، ہوم سیکریٹری اور تین ڈی آئی جیز شامل ہوںگے ۔کمیٹی پولیس رولز سے متعلق سفاشات تیار کرے گی۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق نئے پولیس ایکٹ میں محکمہ داخلہ کے وزیر کو زیادہ با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

بل کو سندھ اسمبلی اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کہا کہ اگر آئی جی کو ہٹانے کی بات ہے تو اب بھی ہمارے پاس انہیں ہٹانے کے اختیارات ہیں۔آئی جی سند ھ کے اختیارات کم کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔حکومت کی کوشش ہے کہ سب کا وقار برقرار رہے۔ انہوںنے کہاکہ اہم شخصیات کو سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے میکنزم بنارہے ہیں ۔

جب بھی سیکیورٹی اداروں کو اسلحہ سے متعلق انفارمیشن ملتی ہے کارروائی ہوتی ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ کراچی میں اسلحے کے بڑے ڈپو موجود ہیں ۔نائن زیرو سے بھی ایک بڑا ڈپو برآمد ہوا تھا ۔اسلحہ کی برآمدگی کے حوالے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں ۔سندھ حکومت اگر میرے اختیارات میں کمی کررہی ہے تو اس بارے میں مجھے علم نہیں ہے ۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ بچوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہے۔بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات نئے نہیںلیکن ہائی لائٹ اب زیادہ ہورہے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے واقعات کے تدارک کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ملزمان کو سزائیں دی جارہی ہیں۔اغوا کی واردات کل ہوئی پولیس نے بروقت کارروائی کی۔معاشرے سے جرائم جڑ سے ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں آئی جی سندھ نے کہا کہ علماء کرام سے مکمل سکیورٹی واپس نہیں لی گئی ہے ۔سندھ حکومت نے خواتین کے تھانوں کے حوالے سے ترمیم کی ہے ۔صوبائی حکومت اگر میرے اختیارات کم کررہی ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہے ۔اے ڈی خواجہ نے کہا کہ اغوا برائے تاوان کیلئے ایران اور افغانستان فون کالز آتی ہیں تاہم ایسی تمام کالز درست نہیں ہوتی۔