آئندہ مالی سال 2018-19ء کا 5661 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا

جمعہ 27 اپریل 2018 22:33

اسلام آباد۔ 27اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 اپریل2018ء) آئندہ مالی سال 2018-19ء کا 5661 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا‘جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس ‘ ہائوس رینٹ سیلنگ اور ہائوس رینٹ الائونس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا‘ دفاعی بجٹ 999 سے بڑھا کر 1100 ارب روپے کردیا گیا ہے‘ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 1030 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے‘ کل آمدن سے صوبائی حکومتوں کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11.8 فیصد زیادہ حصہ دیا جائے گا‘ 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک آمدن پر ایک ہزار روپے جبکہ 8 لاکھ سے 12 لاکھ روپے پر 2 ہزار روپے کا برائے نام انکم ٹیکس لیا جائے گا‘ کھاد ‘ زرعی مشینری ‘ ڈیری و لائیو سٹاک کے لئے ٹیکس میں کمی کردی گئی ہے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی میں موجودہ حکومت کا چھٹا اور اپنا پہلا بجٹ پیش کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال 2018-19ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے 90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ زرعی تحقیق کے لئے امدادی فنڈ قائم کردیا گیا ہے‘ برآمدات میں اضافے کے لئے ٹیکسٹائل ‘ آلات جراعی اور کھیلوں کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے‘ شاہرات کے لئے 310 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں‘ ٹیکسٹائل کے شعبہ کی برآمدات میں اضافے کے لئے مراعات کی پالیسی جاری رہے گی‘ ترسیلات زر میں اضافے کے لئے سٹیٹ بنک انعامی سکیم کا اعلان کرے گا‘ کراچی میں پانی کے بحران کے حل کے لئے نجی شعبے کے ذریعے یومیہ پانچ کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا پلانٹ لگایا جائے گا‘ کراچی‘ پشاور اور حویلیاں ٹیکسلا ریلوے ٹریک کو دو رویہ کیا جائے گا‘ آئندہ مالی سال کے دوران بجلی کے شعبہ میں 138 ارب روپے کی سرمایہ کاری تجویز کی گئی ہے‘ دیامر بھاشا ڈیم پر 474 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے‘ موجودہ مالی سال کے اختتام پر موٹروے کی لمبائی 2500 کلو میٹر تک پہنچ جائے گی‘ گوادر کی ترقی کے منصوبوں پر 137 ارب روپے خرچ کریں گے‘ صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں کھیلوں کے 100 سٹیڈیم بنائے جائیں گے‘ پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کرنے‘ 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کی کم سے کم پنشن 15 ہزار روپے ماہانہ کئے جانے کی تجویز ہے‘ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے 100 ارب روپے کی لاگت سے خصوصی ترقیاتی پروگرام مکمل کیا جائے گا۔

آئندہ مالی سال کے لئے ایف بی آر کے محصولات کی وصولی کا ہدف 4435 ارب روپے ہوگا‘ 1620 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لئے خرچ کئے جائیں گے‘ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت 2018-19ء میں 1030 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ بجٹ خسارہ آئندہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کا 4.9 فیصد ہوگا۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد سے کم کرکے 25 فیصد اور 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے‘ ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے کمپوزٹ آڈٹ کا طریقہ متعارف کرایا جائے گا۔

نان فائلرز 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد نہیں خرید سکیں گے۔ بنکاری اور نان بنکاری کمپنیوں کے لئے سپر ٹیکس کی شرح سالانہ ایک فیصد کی شرح سے کم کردی جائے گی۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 2023ء تک 25 فیصد تک لایا جائے گا۔ ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد کی شرح سے ویلیو ایڈیشن ٹیکس کو ختم کرنے کی تجویز ہے۔ گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کے کیش فلو کے مسائل کے حل کے لئے ایل این جی کی درآمد اور آر ایل این جی کی سپلائی پر موجودہ 17 فیصد کی شرح سے عائد سیلز ٹیکس کم کرکے 12 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

کوئلہ درآمد کرنے والی کمپنیوں کے لئے ٹیکس کی شرح کو 6 فیصد سے کم کرکے 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ قابل ٹیکس آمدنی کی حد میں 12 لاکھ روپے تک اضافہ کرنے کی وجہ سے گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوگی اس لئے تجویز ہے کہ چار لاکھ سے 8 لاکھ روپے کی آمدنی پر 1 ہزار روپے اور 8 سے 12 لاکھ روپے سے 12 لاکھ آمدنی پر 2 ہزار روپے کا برائے نام انکم ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز ہے۔

گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کی طرف سے اشیاء کی فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے جس کے تحت کمپنی کی صورت میں اشیاء کی فروخت پر موجودہ سات فیصد ودہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر 8 فیصد کرنے اور نان کارپوریٹ کیسز کی صورت میں موجودہ 7.75 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ریٹ بڑھا کر 9 فیصد بڑھانے کی تجویز ہے۔ قرآن پاک کی طباعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر کسٹم ڈیوٹی کے ساتھ سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔

یہ چھوٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ قرآن پاک کے رجسٹرڈ ناشران کو بھی میسر ہوگی۔ زرعی شعبے کی ترقی کے لئے ہر قسم کی کھاد پر سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کرکے تین فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ماہی پروری کے فروغ کے لئے فش فیڈ پر عائد دس فیصد سیلز ٹیکس ختم کردیا جائے گا۔ ڈیری فارمز کے لئے پنکھوں اور جانوروں کی خوراک کی تیاری پر عائد سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی بھی تجویز ہے اس کے علاوہ زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سات فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کردیا جائے گا۔

مقامی طور پر لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے 21 اقسام کے پرزوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس مکمل ختم کردیا جائے گا۔ سٹیشنری کے لئے سیلز ٹیکس ختم کردیا جائے گا۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی موجودہ شرح کو بڑھانے کی تجویز ہے۔ افزائش کے لئے بیلوں کی درآمد پر عائد تین فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کردی جائے گی اور جانوروں کی خوراک کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی رعایتی شرح کو دس فیصد سے مزید کم کرکے پانچ فیصد کردیا جائے گا۔

خیراتی اداروں اور ہسپتالوں کو مشینری اور آلات کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت ہے تاہم درآمد کئے جانے کے سات سال کے اندر ان اشیاء کو ٹھکانے لگانے سے ان اشیاء پر عائد پوری ڈیوٹی اور ٹیکس لئے جائیں گے جبکہ سات سال کے بعد ان پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے لئے وفاقی حکومت کی کل آمدن کا تخمینہ 5661 ارب روپے ہے جو پچھلے سال کے نظرثانی تخمینہ کے مقابلے میں 13.4 فیصد زیادہ ہے۔

کل آمدن میں صوبائی حکومتوں کا حصہ 2590 ارب روپے ہوگا جو تقریباً 11.8 فیصد زیادہ ہے۔ آپٹک فائبر کیبل کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ مقامی صنعت کی ترقی کے لئے پلاسٹک کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد کردی جائے گی۔ آئندہ مالی سال کے لئے دفاعی بجٹ کے لئے 1100 ارب روپے رکھنے جانے کی تجویز ہے۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 1030 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے فنڈز بڑھا کر 124 ارب 70 کروڑ روپے کردیئے گئے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے فنڈ کے لئے 68 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ بیوائوں کے قرض حسنہ کے لئے سکیم کی رقم بڑھا کر 6 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔