حکومت اخلاقی و قانونی طور پرایک سال کا بجٹ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتی ، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

فیصد بجٹ تو بیرونی قرضوں اور سود کی نظر ہو رہا ہے اور 35فیصد ڈیفنس کا بجٹ رکھا گیا ہے 10فیصد سول ایڈمنسٹریشن کا غیرترقیاتی بجٹ ہے۔ عوام کے بنیادی ضروریات کے لئے فقط 25 فیصد کابجٹ عوام سے سنگین مذاق ہے، سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین

جمعہ 27 اپریل 2018 23:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 اپریل2018ء) حکومت اخلاقی و قانونی طور پرایک سال کا بجٹ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتی ہے آئین کی ارٹیکل68 حکومت کو چارماہ کابجٹ پیش کرنے کا اخیتار دیتی ہے۔ یہ آنے والی حکومت کو حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنی ترجحات کے مطابق بجٹ بنائے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بجٹ پرمیڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ان کا کہنا تھا کہ 30فیصد بجٹ تو بیرونی قرضوں اور سود کی نظر ہو رہا ہے اور 35فیصد ڈیفنس کا بجٹ رکھا گیا ہے 10فیصد سول ایڈمنسٹریشن کا غیرترقیاتی بجٹ ہے۔

عوام کے بنیادی ضروریات کے لئے فقط 25 فیصد کابجٹ عوام سے سنگین مذاق ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ سال 2017کے بجٹ میں بھی تعلم اور صحت کے لئے تجویز کردہ بجٹ کا صرف 20فیصد ریلیز کیا گیا باقی کا روپیہ کہا ں گیا حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اعداد و شمار کے گورگھ دھندوں میں پھنسا دیا ہے حکمران اپنے آخری سال میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے۔یہ عوام دوست بجٹ نہیں بلکہ عوام دشمن بجٹ تھا معاشی خوشحالی کے سارے دعوے جھوٹ ثابت ہوئے ،سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں موجودہ زبوں حال اور ہوش ربا منگائی کی تناسب سے اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہیں حکمران اپنے آخری سال میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے۔

حکومت اعداد وشمار کا ہیرپھیر کر رہی ہے اور ملک کے متوسط طبقے کی مشکلات میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے موجودہ بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔مہنگائی کے موجودہ تناسب سے مطابقت نہ رکھنے والا یہ بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی طرح اقتصادی معاملات بھی صلاحیتوں کے فقدان کی نذر ہو رہے ہیں۔تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں مختص کی جانے والی انتہائی کم رقم پاکستان کے مستقبل کے بارے حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہے۔

پاکستان ایک زرخیز ملک ہے لیکن زراعت کے میدان میں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔حکومت کی ناکام تجارتی پالیسیوں اور وطن عزیز میں عدم استحکام کی صورتحال نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔غیر ملکی قرضوں میں مذید اضافہ ہوا پاکستان کا کثیر سرمایہ غیر قانونی طریقہ سے ملک سے باہر منتقل کیا گیا جس سے ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

موجودہ حکومت نئی صنعتوں کے قیام میں بٴْری طرح ناکام رہی۔کسی بھی ملک کی ترقی میں انڈسٹری کو اقتصادی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ صنعتوں کے قیام میں حکومت کی دانستہ عدم دلچسپی ایک مجرمانہ فعل اور قوم سے خیانت ہے۔پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو ملازمتوں کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔جس سے عام شہریوں کی مایوسی میں اضافہ ہو ا ہے۔

ملکی ترقی و استحکام کے لیے زرعی خوشحالی اور صنعتوں کے فروغ کی طرف توجہ دی جانے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے نوجوان وہاں کا اثاثہ اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو بہترین مستقبل دینے کے لیے جاندار پالیسیوں کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا مہنگائی کے تناسب کے اعتباز سے مزدور کی تخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کرنی چاہئے۔

۔وفاقی حکومت کی اصل ترجیحات سڑکوں اور پلوں کی تعمیرات کے نام پر کمیشن مافیا کو نوازنا مقصود ہیں،تھر کے پی کے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں غریب عوام کو پینے کی پانی سے لے کر بجلی، صحت کے بنیادی ضروریات،تعلیمی سہولیات تک میسر نہیں،اس بجٹ میں امرا ء کو نوازا گیا ہے ن لیگ حکومت کا حالیہ بجٹ بھی سابقہ ادوار کی طرف مزدور کٴْش ہے۔ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر بجٹ تیار کرنے والوں کوعام آدمی کے رہن سہن کا اندازہ نہیں ہے۔۔۔۔۔اعجاز خان