جب تک ملک میں جج ، جنرل سمیت تمام طبقات کا یکسر احتساب نہیں ہوگا، قانون کی حکمرانی نہیں ہو سکتی،فرحت اللہ بابر

کشمیر پر ہمارے اصولی موقف کے باوجود ہمیں بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے ہونگے،کانفرنس سے خطاب

منگل 8 مئی 2018 20:32

جب تک ملک میں جج ، جنرل سمیت تمام طبقات کا یکسر احتساب نہیں ہوگا، قانون ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مئی2018ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور معروف پالیمنٹرین فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں جج ، جنرل سمیت تمام طبقات کا یکسر احتساب نہیں ہوگا، قانون کی حکمرانی نہیں ہو سکتی۔ ریاست کے اندر ریاست قائم کردی گئی ہے، کشمیر پر ہمارے اصولی موقف کے باوجود ہمیں بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے ہونگے، پڑوسی کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں منگل کے روزپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبراینڈ ریسرچ کی جانب سے دو روزہ ملک گیر قومی کانفرنس برائے انسانی و لیبر حقوق اور ان پر عمل درآمد کی صورتحال سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کے کئی سیشن منعقد کیے گئے جس سے ملک بھر سے آئے مزدور رہنما، انسانی حقوق پر کام کرنے والے رہنمااور سول سواسائٹی کے عمائدین اور اکابرین نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اپنے خطاب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں انسانی حقوق کا ایک چیپٹر ضرور شامل کرلیں۔ انسانی حقوق کے معروف سماجی رہنما آئی اے رحمان نے ملک میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منصفانہ سما عت کے لیے موجودہ قوانین ناکافی ہیں، بنیادی حقوق کے لیے بھی ہمیں مزید قانون سازی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے حقوق کے لیے جاندار اور مظبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ، ایک ایسی آواز جس میں استحکام ہو، اس میں حکمرانوں سے التجا اور اپیل نہ ہو بلکہ عوام کا حکم شامل ہو۔

پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے محنت کشوں کی ابتر صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھاکہ قیام پاکستان کے وقت جو محنت کشوں کو حقوق حاصل تھے اب ان کا دس فیصد بھی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں مزدوروں کا صرف ایک فیصد حصہ یونین سازی سے منسلک ہے جبکہ باقی نناوے فیصد شہری یونین سازی کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ ملک میں اکثریت محنت کشوں کی ہے لیکن اسمبلیوں میں محنت کشوں کی نمائندگی نہیں ، اس لیے ان ایوانوں کو منتخب ایوان نہیں کہا جا سکتا ۔

پچپن فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارتے ہیں ، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو کہ سب محنت کشوں کے بچے ہیں۔انہوں نے پسماندہ طبقات سے اپیل کی کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنے ووٹ کو ہتھیار بنادیں، اپنے نمائندے کھڑے کریں یا محنت کشوں کو ووٹ دیں۔ سندھ ہومین رائیٹس کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس (ر) ماجدہ رضوی نے کہا کہ انسان کی زندگی میں سب سے اہم حق جینے کا حق ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں معلومات کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے کے تمام شعبہ جات میں مساوات نہیں ہے اس لیے حکومت کے اچھے اقدامات پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔چیئرمین نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس جسٹس علی نواز چوہان نے کانفرنس سے خطاب میں کہاکہ جب تک مو ثر طور پر دباو نہیں ڈالا جائے گا ریاست سے حقوق نہیں مل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ اور غیر قانونی دولت کی وجہ سے ہمیشہ کرائم ہوتا ہے، جن کے پاس بھی ایسی دولت ہے ان کے نام پناما اور اقامہ لیکس میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا حقوق کے لیے ہمیں لڑنا پڑے گا۔کنٹری ڈائریکٹر اوپن سوسائٹی فاو نڈیشن ڈاکٹر صبا گل خٹک نے کہا فاٹا اور بلوچستان میں نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے حقوق کے لیے مضبوط آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اموات کے معاوضے کی شرح مختلف علاقوں میں مخلتف ہے۔ سول اور فوجی عملداروں کی شرح مختلف ہے، اور ایک صوبے میں ایک ہے تو دوسرے میں دوسری ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا میں یہ شرح سب سے کم ہے۔کانفرنس سے معروف قانون دان سروپ اعجاز، چیئرپرسن پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن فوزیہ وقار، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلوچستان کے جسٹس (ر) ظہور شاہوانی، لیبررائٹس کے ماہر افتخار احمد، انٹرنیشنل لیبر فیڈریشن کے سعد گیلانی، پاکستان ورکرز فیڈریشن کے خورشید احمد، فصیح الکریم صدیقی، ، سلطان خان سمیت دیگر رہنماو ں نے بھی خطاب کیا۔