چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مطالبہ ہے کہ وہ ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ کی تحقیقات کروائیں،شفقت محمود

ایل ڈی اے پلازہ میں قیمتی ریکارڈ ضائع ہوا ہے ،جوہر ٹائون میں جو پلاٹ بانٹے گئے تھے ان میں بیوائوں کے پلاٹ بھی شامل تھے، جو لوگ بھی اس میں ملو ث ہیں انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اینٹی کرپشن کمیٹی

منگل 22 مئی 2018 19:10

ْ لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2018ء) پاکستان تحریک انصاف اینٹی کرپشن کمیٹی کے چیئرمین شفقت محمود نے کہاکہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مطالبہ ہے کہ وہ ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ کی تحقیقات کروائیں، ایل ڈی اے پلازہ میں قیمتی ریکارڈ ضائع ہوا ہے ،جوہر ٹائون میں جو پلاٹ بانٹے گئے تھے ان میں بیوائوں کے پلاٹ بھی شامل تھے، جو لوگ بھی اس میں ملو ث ہیں انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے ، 23 سال شریف فیملی کو حکومت کرتے ہوئے ہوگئے ہیںاور انہوں نے سرکاری وسائل سے سیاست کی ہے ، جوہرٹائون میں بیوائوں ، مسجدوں ، کھیلوں کے گرائونڈکو بے دردی سے تقسیم کیاگیا اور یہ پلاٹ چھ چھ دفعہ سیل کئے گئے، ان خیالات کا اظہار شفقت محمود نے بریگیڈیر (ر) اسلم گھمن ، ساجدوڑائچ اوردیگر کے ہمراہ چیئرمین سیکرٹریٹ گارڈن ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، انہوںنے کہاکہ ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ میں 27 جانوں کا ضیاع ہو ا اور 27 گھروں کے چراغ گل ہوگئے ، اس واقع کے دوماہ بعد دوبارہ آگ لگائی گئی جس میں جوہر ٹائون میں موجود پلاٹوں کا ریکارڈ ضائع کیا گیا، یہ آگ 9 مئی 2013 ء کو جنرل الیکشن کے دودن پہلے لگی جس میں ریکارڈ کے ساتھ انسانی جانوں کا ضیاع ہو ا ،مگر اس کی واقع کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی تھی ،اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی تھی، ماڈل ٹائو ن واقع کی انکوائری ہوئی اور اس کی رپورٹ مرتب ہوئی مگر ایل ڈی پلازہ میں دودفعہ لگنے والی آگ کے واقعات پر کوئی انکوائری یاتحقیقات نہیں کروائی گئیں، شفقت محمود نے کہاکہ میرے ساتھ ساجد وڑائچ چیئرمین ایل بی اے پاکستان بیٹھے ہیں یہ اس واقع کے چشم دید گواہ ہیں کہ کس طرح ایل ڈی اے پلازے میں آگ لگائی گئی اور وہاں پر موجود ریکارڈ کو کس طرح جلایا گیا ، ساجد وڑائچ نے کہاکہ ہمیں ایل ڈی اے پلازے میں پہلی آگ لگنے کے بعد ٹھیکہ دیا گیا تھا اور جلنے والی تین منزلوں کو کلیئر کرنے کا کہا گیا ہے اور اسی دوران ایل ڈی اے چند ملازمین نے وہاں پڑی ہوئی لوہے کی الماریوں سے ریکارڈ نکال کر ایل ڈی اے کی ساتویں منزل پر منتقل کیا اور پھر اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت ضائع کیا گیا، رہنمائوں نے کہاکہ ان دونوں آگ کا ایک ہی بینی فشری ہوسکتا ہے ، شفقت محمود نے کہاکہ فرنزک رپورٹ کے مطابق دوسری دفعہ لگنے والی آگ کسی شارٹ سرکٹ یا کوئی حادثاتی طورپر نہیںلگی تھی بلکہ اسے جان بوجھ کر ریکارڈ ضائع کرنے کے لئے لگایا گیا تھا، شفقت محمود نے کہاکہ ہماری چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس ہائیکورٹ سے سے اپیل ہے کہ وہ ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائیں اور ان واقعات کے پیچھے محرکات کو منظر عام پر لایا جائے ۔

(جاری ہے)

شفقت محمود نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ آج ہو جانا چاہئے تھا ، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا اور اگر وہاں سے بھی نگران وزیراعظم کا فیصلہ نہ ہو ا تو پھر یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس جا کر حل ہو گا۔