پائیدار معیشت اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی ہے جب تک اس کی برآمدات میں زیادہ اقدار والی اشیاء شامل نہیں کی جاتیں پاکستان کو سائنس و ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دے ،ایس این ٹی پالیسی کو کامیابی سے لاگو کرنے سے ملک کے اندر صنعتی و زرعی ترقی میں تیزی آئیگی ،سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنا کر ہی ملکی صنعتی ترقی کو ممکن بنا یا جا سکتا ،رپورٹ

ہفتہ 26 مئی 2018 23:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 مئی2018ء) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے پاکستان میں معیشت کی بہتری کیلئے جامع رپورٹ جاری کی ہے جس کیمطابق پائیدار معیشت اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی ہے جب تک اس کی برآمدات میں زیادہ اقدار والی اشیاء زیادہ سے زیادہ مقدار میں شامل نہیں کی جاتیں ،لہذا اس مقصد کیلئے پاکستان کو چاہیے کہ سائنس و ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دے ، دنیا صنعتی ترقی میں فورتھ جنریشن انقلاب کیطرف جا رہی ہے اور پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے،دنیا ڈرائیوروں کے بغیر کار اور فیکٹریوں میں روبوٹ لا رہی ہے جبکہ پاکستان ابھی عام صنعت کاری بھی نہیں کر پا رہا ہے،ایس این ٹی پالیسی کو کامیابی سے لاگو کرنے سے ملک کے اندر صنعتی اور زرعی ترقی میں تیزی آئیگی ،سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنا کر ہی ملکی صنعتی ترقی کو ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

آئی پی آر کی یہ رپورٹ اور شفارشات سابق وفاقی وزیر اور چیئر مین ہائر ایجو کیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن نے پاکستانی معیشت کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کی ہیں ۔آئی پی آر رپورٹ کیمطابق پاکستان کی برآمدات میں سب سے اہم برآمد ٹیکسٹائل کی ہے جو کہ پاکستانی برآمدات کا ساٹھ فیصد ہے جبکہ عالمی برآمدات میں یہ حصہ صرف چھ فیصد بنتا ہے ،مجموعی طور پر صنعتی طریقے سے تیار کی گئی اشیا ء عالمی تجارت کا 67فیصد ہیںجبکہ پاکستان کاعالمی تجار ت میں حصہ انتہائی محدود ہے ،اس کی بڑی وجہ زیادہ اقدار والی اشیاء کا نہ بنانا اور نہ ہی برآمد کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہو پا رہا ،اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت میں کو ئی جدت بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا صنعتی سیکٹر جدید طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے ،پاکستان کی جی ڈی پی میں مینو فیکچرنگ کا حصہ چودہ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ مشرقی ایشیاء کی معیشتوں میں یہ جی ڈی پی 37سے 43فیصد تک ہے، مینو فیکچرنگ بھارت کی جی ڈی پی کا تیس فیصدہے جبکہ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی کا اٹھائیس فیصد ہے ۔

مینو فیکچرنگ اور معیشت کی گروتھ کیلئے ضروری ہے کہ ایس این ٹی پالیسی معیشت کے تمام پہلووں پر لاگو کی جائے نیز اس کو موثر بنانے کی بھی ضروت ہے اس کے علاوہ حکومتی سطح پر اسے اولین ترجیح دی جائے ۔آئی پی آر کی ایس این ٹی پالیسی کافی اجزاء مشتمل ہے جس میں تعلیم ،فنی تربیت ،ریسرچ اینڈ ڈویلمپنٹ ،سپیشلا ئزڈ ،فنی ادارے اور ان کی نگرانی و جانچ پڑتال کیلئے ایک اعلیٰ معیار کے نظام کا قائم کرنا ہے ۔

آئی پی آر کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کی تعلیمی حالت انتہائی کمزور ہے لہذا اس وقت ملک کے اندر نیشنل ایجوکشن ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے اور اس پر جنگی طریقوں سے عمل پیرا کیا جائے ۔آئی پی آر کی پالیسی کا ایک اہم جزو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ،سپیشلا ئزڈ فنی اداروں کا قیام ہے تا کہ ملک کے اندر صنعتی اور زرعی ترقی کیلئے ماہرین پیدا کیے جا سکیں،اس کے علاوہ صنعتی ترقی کیلئے اعلیٰ قسم کے علم کا ہونا انتہائی ضروری ہے لہذا اس مقصد کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر پر زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہو نگی ۔

آئی پی آر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ کوالٹی اشیاء کی پیداوار کیلئے ضروری ہے کہ ان کی نگرانی اور جانچ پڑتال کیلئے اعلیٰ قسم کی ادارے بنائے جائیں ۔بیرون ملک سے پاکستان میں نالج کی منتقلی بھی اعلیٰ قسم کی انڈسٹری کیلئے ضروری ہے ۔آئی پی آر کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا صنعتی ترقی میں فورتھ جنریشن انقلاب کی طرف جا رہی ہے جبکہ پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے ۔

دنیا ڈرائیوروں کے بغیر کار اور فیکٹریوں میں روبوٹ لا رہی ہے جبکہ پاکستان ابھی عام صنعت کاری بھی نہیں کر پا رہا ہے ۔لہذا پاکستان کیلئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ نہ صرف مینو فیکچرنگ میں سپیڈ پکڑے بلکہ نئی اور جدید قسم کی ٹیکنالوجی بھی اپنائے اس کے علاوہ پاکستان کو فوری طور پر انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں بھی قابلیت لانا ہو گی ۔ایس این ٹی پالیسی کو کامیابی سے لاگو کرنے سے ملک کے اندر صنعتی اور زرعی ترقی میں تیزی آئے گی لہذا سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنا کر ہی ملکی صنعتی ترقی کو ممکن بنا یا جا سکتا ہے ۔