Live Updates

انتخابات ایک ایسا بہت بڑا جمہوری عمل ہے جس میں پوری قوم بھرپور حصہ لیتی ہے ،

حالیہ بھاگ دوڑ ہے یہ بھی اس سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے ، حالیہ معاشی اور سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر ملک کو معاشی اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے ، ملک کو آگے لیکر جانے کے لیے ہمیں گروہی و علاقائی سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے مینجنگ ڈائریکٹر ’’اے پی پی ‘‘و سینئر تجزیہ کار مسعود ملک کا پی ٹی وی کے ایک پروگرام ’’چوتھا ستون‘‘ میں اظہار خیال

منگل 31 جولائی 2018 13:39

انتخابات ایک ایسا بہت بڑا جمہوری عمل ہے جس میں پوری قوم بھرپور حصہ لیتی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 جولائی2018ء) قومی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مینجنگ ڈائریکٹر و سینئر تجزیہ کار مسعود ملک نے کہا ہے کہ انتخابات ایک ایسا بہت بڑا جمہوری عمل ہے جس میں پوری قوم بھرپور حصہ لیتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی موجودہ بھاگ دوڑ بھی سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ پاکستان کی حالیہ معاشی اور سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو معاشی اور سیاسی استحکام کی بہت اشد ضرورت ہے اور ملک کو آگے لیکر جانے کے لیے ہمیں گروہی و علاقائی سیاست سے بالاتر ہو کر اپنے ملک کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’چوتھا ستون‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے لیے اہم اور ضروری بات یہی ہونی چاہیئے کہ ہم نے ملکی مسائل کو کیسے حل کرنا ہے اور ان حالات سے کیسے باہر نکلنا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری یہ کوشش نہیں ہونی چاہیئے کہ کسی گروپ کے رکن کو توڑ کر اپنے ساتھ شامل کیا جائے یا کسی اور کی وفاداری تبدیل کرانے کی کوشش کریں بلکہ ہمیں چاہیئے کہ تمام قومی مسائل پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور حکومت کا ایجنڈا اور ترجیحات پاکستان کو درپیش حالیہ مسائل سے نمٹنا اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے مثبت اور ٹھوس اقدامات کرنا ہو تاکہ ملک آگے بڑھے۔

ایک سوال کے جواب میں مسعود ملک نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے اپنے تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان کے پاس یہ بات کرنے کا حق بھی ہے لیکن اب چونکہ انتخابات کا سارا عمل مکمل ہو چکا ہے اس لئے اگر کہیں دھاندلی ہوئی ہے یا نتائج قابل قبول نہیں یا کہیں کوئی خامیاں رہ گئی ہیں تو اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دستیاب پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا چاہیئے۔

مینجنگ ڈائریکٹر اے پی پی مسعود ملک کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں جمہوری عمل کو ہر حال میں آگے چلتے رہنا چاہیئے کیونکہ اس جمہوری عمل کے تسلسل میں ہی عوام کی بھی بہتری ہے اور پاکستان کی بھی بہتری ہے اس لیے جمہوری عمل کو کسی صورت بھی رکنا نہیں چاہیئے اور اس جمہوری عمل کا فائدہ پاکستانی عوام کو بھی ہونا چاہیئے اور انہیں درپیش مسائل حل ہونے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ملکی معیشت کی صورتحال ، قرضوں کے بوجھ ، بے روزگاری ، سرحدی صورتحال، افغانستان اور امریکہ سے تعلقات میں بہتری جبکہ تجارتی خسارے جیسے مسائل کا سامنا ہے اور ان تمام مسائل کے حل کے لیے پارلیمان میں پہنچنے والی جماعتوں کی اب کوشش ہونی چاہیئے کہ ان مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے سے ایک ایسا منصوبہ تیار کرے جس سے یہ تمام مسائل حل باآسانی حل ہو سکیں، اس کے لیے میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا اور ان مسائل کو اجاگر کرنا ہو گا تاکہ ایک قومی اتفاق رائے سے تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے مل کر ملک و قوم کو اس صورتحال سے نکالیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات جیتنے کے بعد حکومت سازی کی طرف رواں دواں ہے اس لیے اب جو کچھ بھی کرنا ہے یا کوئی اقدامات اٹھانے ہیں وہ پی ٹی آئی اور عمران خان نے ہی کرنے ہیں اور یہ اب انہی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی جماعت اور حکومت کی پالیسیاں کس نہج پر استوار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ انتخابات گزر گئے لیکن وہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے، بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ ہمارے ہاں بہت سے مسائل ان انتقامی کارروائیوں ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ماضی میں بھی ان سلسلوں نے پاکستان کو جمہوریت کو اور خود سیاستدانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اس لیے انتقام کا سلسلہ تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جو وعدے کیے ہیں ان کی تکمیل کے لیے انہیں بہت سنجیدہ ہو کر کام کرنا پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی سے ملک کے نوجوانوں کو بہت زیادہ توقعات ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت کو عوامی مسائل کے حل کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور ان ٹھوس اقدامات کے لیے پی ٹی آئی کو سیاسی حمایت کی ضرورت بھی ضرور درکار ہو گی، قومی مسائل کے حل کیلئے انہیں اپوزیشن کی حمایت بھی درکار ہو گی اور حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنا پڑے گا اور مل جل کر آگے بڑھنے سے ہی ملک و قوم کا فائدہ بھی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور بہت زیادہ نقصان بھی اٹھایا ہے اس لیے بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بہت اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی محرومیوں کو دور کیا جا سکے۔ تعمیروترقی کے لحاظ سے بلوچستان بہت پیچھے ہے جسے بہتر بنانا ہو گا اور یہاں تعمیرو ترقی کو ترجیح دینا ہو گی اور اس کی پسماندگی کو دور کرنا ہو گا اور موجودہ منتخب نمائندوں اور اسمبلی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں اور فوری و ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور وہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ ان لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو۔

انہوں نے کہا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد پر فوکس کی بجائے میڈیا کو بلوچستان کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور ان مسائل کو اجاگر کرنا چاہیئے اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کی جانی چاہیئں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہر شہری کو قومی تعمیروترقی اور بہتری میں اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیئے جس کے لیے کمیٹی سسٹم بہت اہم ذریعہ ہے جس کی مدد سے بہت زیادہ بہتری لائی جا سکتی ہے اور پوری دنیا کی پارلیمان اور مہذب معاشروں کے اندر یہ کمیٹیاں ہی ملکی پالیسیاں بناتی ہیں جن کے پاس پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں اور باہر موجود لوگوں کا ہر طرح کا فیڈبیک موجود ہوتا ہے اس لیے میرے خیال میں موجودہ سیاسی قیادت کو اپنے پارٹی سسٹم کو مضبوط کرنا چاہیئے اور بننے والی سٹینڈنگ کمیٹیوں کو پوری طرح فعال کرنا چاہیئے۔

تعلیم و صحت سمیت قانون و انصاف اور دیگر شعبوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اندر سے فیڈبیک لینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے باہر سے بھی ضرور فیڈبیک لینا چاہیئے تاکہ ان شعبوں میں مزید بہتری لائی جا سکے اور اسی طرح ملک آگے بھی بڑھے گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات