اُسامہ بن لادن مجھے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا ، لیکن وہ راستہ بھٹک گیا

اُسامہ بن لادن کی والدہ نے 17 سال کے بعد اپنے بیٹے سے متعلق خاموشی توڑ دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 3 اگست 2018 12:52

اُسامہ بن لادن مجھے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا ، لیکن وہ راستہ ..
سعودی عرب (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 03 اگست 2018ء) : القاعدہ لیڈر اُسامہ بن لادن کی والدہ نے 9/11 کے حادثے کے 17 سال کے بعد خاموشی توڑ دی ۔ تفصیلات کے مطابق اُسامہ بن لادن کی والدہ عالیہ غنیم نے کہا کہ اُسامہ بن لادن مجھے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا لیکن وہ اپنا راستہ بھٹک گیا۔ اس کے دُور جانے سے میرے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اُسامہ بچپن میں ایک بہت اچھا اور سُلجھا ہوا بچہ تھا جو مجھ سے بے حد پیار کرتا تھا۔ عالیہ غنیم سعودی عرب کے شہر جدہ میں اپنے دو بیٹوں احمد ، حسن اور اپنے دوسرے شوہر محمد العطاس کے ہمراہ  ایک عالی شان محل نما گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ عالیہ نے بتایا کہ اُسامہ 1957ء میں سعودی شہر ریاض میں پیدا ہوا، اُسامہ کی پیدائش کے تین سال کے بعد میں نے اپنے پہلے شوہر کو طلاق دی اور محمد العطاس سے شادی کر لی۔

(جاری ہے)

انہوں نے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اُسامہ کی تب سے کفالت کی ، جب وہ تین برس کا تھا۔ اُسامہ اور العطاس ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔
عالیہ غینم نے کئی سال اُسامہ سے متعلق بات نہیں کی ۔ اُسامہ کے دو دہائیوں تک القاعدہ لیڈر رہنے اور امریکہ اور واشنگٹن پر حملے کے 9 سال کے بعد پاکستان میں اُسامہ بن لادن کی موت تک عالیہ نے کبھی اپنے بیٹے اُسامہ بن لادن کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔

عالیہ غینم اور ان کے خاندان کا انٹرویوحال ہی میں غیر ملکی جریدے گارڈین کے ایک نمائندے نے کیا۔ عالیہ نے بتایا کہ اُسامہ بن لادن نے 20 سال کی عمر میں کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے اس کا برین واش کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اُسامہ بچپن میں تھوڑا شرمیلا تھا لیکن پڑھائی میں کافی تیز تھا۔20 سال کی عمر میں اُسامہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی میں اکنامکس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ، اس یونیورسٹی نے میرے بیٹے کو بدل کر رکھ دیا اور وہ ایک یکسر مختلف انسان بن گیا۔

اسی یونیورسٹی میں اُسامہ عبد العظام نامی ایک شخص سے ملا، جسے کچھ عرصہ بعد سعودی عرب سے جلا وطن کر دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں وہ اُسامہ کا روحانی پیشوا بن گیا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے اُسامہ کا برین واش کر دیا تھا ، ان کے پاس اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کافی سارا پیسہ بھی تھا۔ میں ہمیشہ اُسامہ کو ایسے لوگوں سے دُور رکھنے کی ہدایت کرتی تھی۔

وہ مجھے کبھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ 80 کی دہائی کے آغاز میں ہی اُسامہ رُوسی قبضے کے خلاف جنگ لڑنےکے لیے افغانستان روانہ ہوگیا۔ اُسامہ کے سوتیلے بھائی حسن نے بتایا کہ آغاز میں وہ جس سے بھی ملا، سب اس کی عزت ہی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سعودی حکومت بھی اس سے باعزت اور باوقار طریقے سے پیش آتی تھی لیکن پھر اُسامہ ، مجاہد اُسامہ بن گیا۔

حسن نے اُسامہ کے ایک بہادر سپاہی ہونے سے عالمی مجاہد بننے تک کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرا بڑا بھائی تھا اور مجھے اُس پر فخر تھا۔ میں نے اُسامہ سے بہت کچھ سیکھا۔ لیکن میں بطور انسان اُس پر فخر نہیں کرتا ، کیونکہ وہ عالمی سطح پر ایک معروف شخصیت بن گیا تھا۔ اُسامہ کی والدہ نے بتایا کہ وہ ایک نہایت ذہین بچہ تھا جسے تعلیم حاصل کرنا بے حد پسند تھا۔

لیکن اُسامہ نے اپنا سارا پیسہ افغانستان میں ہی لگا دیا جو اس نے خاندانی کاروبار سے چُپکے سے چُرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا کہ میرا بیٹا جہادی بھی بن سکتا ہے۔ اور جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں بہت پریشان ہو گئی،میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ بھی ہو۔
اُسامہ کے خاندان نے بتایا کہ ہم نے اُسے 1999ء میں آخری بار دیکھا تھا ، تب ہم اس سے ملاقات کے لیے قندھار میں موجود اس کی بیس پر گئے تھے۔

عالیہ غینم نے بتایا کہ یہ جگہ ائیر پورٹ کے قریب تھی جہاں سے انہوں نے روسی قبضہ ختم کیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اُسامہ بے حد خوش ہوا تھا۔ ہم جتنے دن بھی وہاں رہے اُس نے ہمیں سیر کروائی ، اُسامہ نے ایک جانور کا شکار کیا اور ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اُسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی احمد نے بتایا کہ 17 سال ہو گئے لیکن ہماری والدہ کو ابھی تک اُسامہ کے دُور جانے اور اس کی موت کا یقین نہیں آتا۔

وہ اُس سے بے حد محبت کرتی تھیں اسی لیے اُسامہ کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے وہ اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو اس سب کا ذمہ دار مانتی ہیں۔ وہ صرف اُسامہ کا ایک ہی روپ جانتی ہیں، وہ اچھا رُوپ جو ہم سب نے دیکھا تھا۔ انہوں نے کبھی اُسامہ کو جہادی کے طور پر نہیں دیکھا۔
9/11 حملے کے بعد ہم سکتے میں آگئے تھے، ہمیں اُسامہ سے تعلق پر شرمندگی ہونے لگی، ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں اس کے بھیانک نتائج بھُگتنا ہوں گے ، اسی لیے شام ، لبنان ، مصر اور یورپ میں مقیم ہمارے خاندان کے تمام افراد واپس سعودی عرب آ گئے۔

احمد نے بتایا کہ ہمارے سابق ولی عہد محمد بن نائف کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے اُسامہ بن لادن کی اہلیہ اور بچوں کو واپس سعودی عرب آنے کی اجازت دی۔ انہیں شہر میں گھومنے کی اجازت تو ہے لیکن ان کے سعودی عرب سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے۔ اُسامہ کی والدہ نے بتایا کہ میری اکثر اُسامہ کے خاندان سے بات ہوتی ہے، وہ پاس ہی رہتے ہیں۔

اُسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کے جہادی بننے اور افغانستان میں ہونے کی خبروں سے متعلق سوال کے جواب میں اُسامہ کے سوتیلے بھائی حسن نے بتایا کہ اُسامہ بن لادن کے 29 سالہ بیٹے حمزہ کو ہم نے یہ کہتے سُنا تھا کہ میں اپنے والد کی موت کا بدلہ لوں گا۔ اگر حمزہ میرے سامنے ہوتا تو میں اس کو خبردار کر دیتا اور اُسے سمجھاتا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لے اور اپنے والد کے نقش قدم پر نہ چلے ، اللہ کی ہدایت حاصل کرے۔