Live Updates

ْسپریم کورٹ میں ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت

خاور مانیکا ، احسن جمیل گجر ، وزیرعلیٰ پنجاب کے پرسنل سٹاف افسرحیدر، سی ایس او عمر، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرزپنجاب شہزادہ سلطان اور کرنل طارق طلب، مزید سماعت پیرتک ملتوی

جمعہ 31 اگست 2018 22:25

ْسپریم کورٹ میں ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 اگست2018ء) سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں خاور مانیکا ، وزیراعلٰی پنجاب کے بھائی احسن جمیل گجر ، وزیرعلیٰ پنجاب کے پرسنل سٹاف افسرحیدر، سی ایس او عمر، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرزپنجاب شہزادہ سلطان اور کرنل طارق کو طلب کرتے ہوئے مزید سماعت پیرتک ملتوی کردی ہے اور کہاہے کس طرح کسی خاتون کو روکنے یا ناکے پر خاور مانیکا کے نہ رکنے پر پولیس کی طرف سے گاڑی کا پیچھا کرنے کی پاداش میں ضلعی پولیس افسر کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔

آج یہ واقعہ پوری دنیا میں زیر بحث ہے ۔ عدالت اداروں میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کرے گی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت دیگرسرکاری لا ا فسران پبلک آفس کے غلط استعمال سے متعلق آرٹیکل 62 ون ایف کے سکوپ سے آگاہی کیلئے عمران خان ، جہانگیر ترین اور حنیف عباسی کے کیسوں کے عدالتی فیصلے پڑھ کر تیاری کے ساتھ پیش ہوں۔

(جاری ہے)

جمعہ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل تین رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ، اس موقع پرآئی جی پنجاب کلیم امام، آر پی او ساہیوال شاہد کمال صدیقی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کوڈائس پر طلب کرکے واقعہ کی تفصیلات معلوم کیں توعدالت کو بتایا گیا کہ خاور مانیکا کی بیٹی صوفی بزرگ بابا فرید کے مزار کی طرف پیدل جارہی تھی کہ اٴْنھیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ جس پرپنجاب پولیس کے سربراہ کلیم امام نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کو روکا نہیں گیا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑا گیا تھا چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ اس وقت موقع پر موجود تھے توآئی جی پنجاب کلیم امام کا کہنا تھا کہ وہ موقع پر موجود تو نہیں تھے لیکن اٴْنھوں نے سپیشل برانچ سے اس واقعے کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔

عدالت کے استفسارپر بتایا گیا کہ اس واقعے کے بعد پولیس اہلکاروں نے خاور مانیکا کی گاڑی کو روکا لیکن وہ نہ رکے تو ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے گاڑی کا پیچھا کرکے کچھ فاصلے پر اسے روک لیا ،اس واقعے کے بعد وزیر اعلی پنجاب کے پی ایس او کی طرف سے فون آیا کہ وہ فوری طور پر وزیر اعلٰی ہائوس پہنچ جائیں جس پرڈی پی او پاکپتن، لاہور میں وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر چلے گئے۔

عدالت کے استفسارپر ڈی پی او رضوان گوندل نے عدالت کوآگاہ کیاکہ سی ایم ہائوس میں وزیر اعلٰی پنجاب کے علاوہ وہاں پر ایک اور شخص احسن جمیل گجر بھی بیٹھا ہوا تھا جس کا تعارف وزیر اعلی نے اپنے ’بھائی‘ کے طور پر کرایا اورکہا اٴْنھیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر ان سے معافی مانگیں، رضوان گوندل نے بتایا کہ میںنے اس معاملے کی انکوائری کرنے کی حامی ضرور بھری لیکن خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے سے انکار کردیا۔

جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ خاور مانیکا کون ہوتاہے جو معافی مانگنے کی بات کرتاہے ۔عدالت کوبتایا جائے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے خاور مانیکا سے معافی مانگنے کے لئے کیوں دباوؤ ڈالا، عدالت اس معاملے کاجائزہ لے کر دیکھے گی کس طرح دباؤ کے تحت ایک پولیس افسر کا تبادلہ کیا جاتا ہے ،آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ان پر تبادلے کے لئے کوئی دباؤ نہیں تھا بلکہ رضوان گوندل کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی ، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کے موقف کو مسترد کر دیا اور کہا کہ بادی النظر میں ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ سیاسی دباؤ میں آکر کیا گیا ہے۔

عدالت کے استفسار پر ڈی پی او رضوان گوندل نے مزید بتایا کہ مجھے آئی ایس آئی کے کرنل طارق نے بھی بیرون ملک سے کئی پیغام بھیجے تھے، تاہم رات ساڑھے بارہ بجے وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک افسر کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ میرا تبادلہ کردیا گیا ہے، عدالت نے استفسارکیا کہ کیا خاورمانیکا عدالت میں موجود ہے جس پرعدالت کوبتایا گیا کہ خاور مانیکا عدالت میں حاضر نہیں، عدالت کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پیش ہوکر بتایا کہ ابراہیم مانیکا گلگت نلتر میںہیں،خاور مانیکا نے اپنی بچی کو سکول سے لینے کیلئے جانا ہے، جبکہ احسن جمیل گجر کا نمبر نہیں مل رہا ،جس پر عدالت نے تین بجے تک خاور مانیکاان کے بیٹے ابراہیم مانیکا اور جمیل گجر کو طلب کیا مگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

بعدازاں عدالت نے خاور مانیکا ، ان کے بیٹے اور جمیل گجر کے علاوہ وزیراعلی پنجاب کے پی ایس او حیدر، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز شہزادہ سلطان اور سی ایس او وزیر اعلیٰ عمر کو بھی طلب کر لیا اورہدایت کی کہ آرپی او اور اور ڈی پی او عدالت میں بیان حلفی بھی جمع کرائیں ،چیف جسٹس نے مزیدکہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اوردیگرسرکاری لا ء افسران آئندہ سماعت پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اسکوپ دیکھ کرآئیں جس میں عدالت نے پبلک آفس کے غلط استعمال کا جائزہ لیا تھا ، عدالت عمران خان، جہانگیر ترین اورحنیف عباسی کے کیسوں میں بھی کچھ اصول طے کرچکی ہے ، اس طرح جسٹس منیر نے مشرف کیس میں بھی کچھ اس طرح کا فیصلہ دیا تھا ، لاء افسران یہ فیصلے پڑھ کر آئیں، فی الحال عدالت وزیراعلی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ، کیس کی مزید سماعت سوموار کوہوگی ۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات