جمال خاشقجی کو تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا. ترک جریدے کا دعوی

آڈیوریکارنگ میں تشدد اور قتل کی واردات سنی گئی‘لاش کہاں گئی پتہ نہیں. رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 17 اکتوبر 2018 15:37

جمال خاشقجی کو تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا. ..
انقرہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 17 اکتوبر۔2018ء) سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی میں نیا انکشاف سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا. ترک جریدے’ ’ینی شفق“ نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا گیا اور ان پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے آفس کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں. ترک جریدے نے ذرائع کے حوالے سے بیایا ہے کہ سعودی جنرل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ میں فرانزیک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیگے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا اس دوران انہوں نے خود بھی کانوں میں ایئر فون لگائے رکھے جبکہ دیگر افراد کو بھی لگانے کی ہدایت دیتے ہوئے سنے گئے.

دوسری جانب امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک حکام کی جانب سے صحافی کی مبینہ گمشدگی میں ملوث مشتبہ افراد کی شناخت میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے ایک شخص سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا قریبی ساتھی ہے. امریکی جریدے کی خصوصی رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص کو پیرس اور میڈرڈ میں ولی عہد کے ہمراہ ہوائی جہاز سے باہر آتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ رواں برس ان کے امریکا کے دورے کے موقع پر تصاویر میں اسے سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ کھڑا دیکھا گیا تھا.

اس کے علاوہ گواہان اور ریکارڈ کی مدد سے دیگر 3 افراد کا بھی سعودی ولی عہد کے حفاظتی دستے سے منسلک ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ پانچواں شخص ایک فرانزیک ڈاکٹر ہے جو سعودی وزارت داخلہ اور شعبہ صحت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، اتنی اہم شخصیت کو صرف اعلیٰ سعودی حکام کی جانب سے ہی ہدایت دی جاسکتی ہے. چناچہ ترکی کے دعوے کے مطابق اگر یہ افراد اس وقت سعودی قونصل خانے میں موجود تھے جب جمال خاشقجی لاپتہ ہوئے تو یقیناً یہ افراد مذکورہ واقعے سے سعودی ولی عہد کے براہ راست کسی تعلق کے بارے میں معلومات دے سکتے ہیں.

رپورٹ سے اس دعوی کی بھی تردید ہوتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ صحافی کے قتل میں نامعلوم قاتل ملوث ہوسکتے ہیں اور اب سعودی ولی عہد کا مبینہ طور پر براہ راست تعلق سے وائٹ ہاﺅس اور کانگریس کے لیے دیگر وضاحتوں پر یقین کرنا مشکل ہوگا. امریکی جریدے نے اپنے آزادانہ ذرائع اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 15 میں سے کم از کم 9 مشتبہ افراد کی شناخت ہوگئی ہے جن کا تعلق سعودی سیکورٹی، فوج اور دیگر محکموں سے ہے.

ان مشتبہ افراد میں سے ایک مہر عبدالعزیزمتریب کو لندن میں موجود سعودی سفارت خانے نے 2007 میں سفارت کار کے طور پر نامزد کیا تھا جبکہ وہ ولی عہد کے ساتھ اکثر سفر پر نظر آتے ہیں. واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی فرماں جمال خاشقجی کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات سے انکار کرچکے ہیں اوراس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ صحافی سفارتخانے سے واپس چلے گئے تھے.

دوسری جانب بڑے امریکی کاروباری گروپس ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شمولیت سے دستبرداری کا فیصلہ کرچکے ہیں جبکہ کانگریس اراکین سعودی عرب پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں. اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سعودی عرب صحافی کے قتل کا اعتراف کرنے کی تیاری کررہا ہے جس میں ممکنہ طور پر ایک حساس اہلکار کو قصوروار ٹہرایا جاسکتا ہے جس کی تفتیش کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی. دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے کا ترک عہدیدار کا حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے تاہم انہوں نے لاش کو ٹھکانے لگانے کے طریقے کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کیا.