پاکستان کے عام انتخابات2018ء سابقہ الیکشن کے مقابلے میں بہتر تھے ،یورپی یونین

سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حد سے زائد اخراجات،پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوج کی تعیناتی ، سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کی نامزدگی اورمیڈیا اور اظہار رائے پر پابندیوں کے معاملات تشویشناک ہیں، چیف مشن آبزرور مائیکل گیہلر

جمعہ 26 اکتوبر 2018 20:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اکتوبر2018ء) یورپی یونین نے پاکستان کے عام انتخابات 2018کو سابقہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حد سے زائد اخراجات،پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوج کی تعیناتی ،میڈیا اور اظہار رائے پر پابندی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کی نامزدگی اورمیڈیا اور اظہار رائے پر پابندیوں کے معاملات تشویشناک ہیں۔

جمعہ کے روز اسلام آباد میں یورپی یونین ابزرور مشن کی حتمی رپورٹ برائے 2018انتخابات پیش کرتے ہوئے مشن کے چیف آبزرورمائیکل گیہلرنے کہاکہ حتمی رپور ٹ میں پاکستان میں مشن کی موجودگی کے دوران مشاہدات کے تجزیے اور نتائج کے علاوہ آئندہ عام ا نتخابات کیلئے جامع سفارشات پر بھی شامل ہیں اور ان سفارشات میں متعلقہ اداروں جن میں الیکشن کمیشن ، حکومت پاکستان، قومی اسمبلی ، سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی اور دیگر اہم شراکت دار شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین آبزرور مشن کی جانب سے عام انتخابات کے بعد دی جانیوالی پچاس اصلاحات میں سے حکومت اور الیکشن کمیشن نے 38اصلاحات کو جزوی یا قلی طور پر نافذ کیا ہے تاہم کئی معاملات ابھی بھی باعث تشویش ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم پر حد سے زائد ا خراجات ، امیدواروں کے غیر مبہم اور غیر معروضی معیار انتخابی عمل کے تمام مراحل تک مشاہدہ کاروں کی نامکمل رسائی یکجا انتخابی فہرست کی عدم موجودگی اور میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں شامل ہیں انہوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی بہتر رہی ہے اور انتخابات کے تکنیکی پہلوئوں کا انتظام بڑی حد تک خوش اسلوبی سے کیا گیا تاہم ای سی پی اپنے فیصلوں ، طریقہ کار اور عوامی دلچسپی کے دیگر معاملات کو بروقت رائے دہندگان اور انتخابی عمل کے شراکت داروں تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ رائے دہندگان کی ناکافی تعلیم ، پوسٹل بیلٹ کے ناقص نظام اور حلقہ بندیوں و نتائج کی ترسیل میں شفافیت پر بھی روشنی ڈالتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے موقع پر اظہار رائے پر بے جا پابندیوں کے نتیجے میں میڈیا نے قابل ذکر حد تک خود کو سنسر کرنا شروع کردیا اسی طرح بڑے بڑے اجتماعات پر پابندیاں ، پولنگ اسٹیشنز کے اندر مسلح افواج کی موجودگی اور خواتین کی بطور رائے دہندگان و اراکین اسمبلی کی کم نمائندگی جیسے معاملات بھی شامل ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں 30سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں آٹھ سفارشات اہمیت رکھتی ہیں جن کے مطابق انتخابات کے دوران لگنے والی پابندیوں کا دوبارہ آئین و الیکشن ایکٹ کے تحت جائزہ لیا جائے ، الیکشن کمیشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے الیکشن ایکٹ پر نظرثانی کی جائے ، الیکشن سے متعلق عوامی دلچسپی کے معاملات کی آن لائن اشاعت کا طریقہ کارشامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہاکہ سفارشات میں الیکشن کمیشن پر عوام کا اعتماد بڑھانے کے لئے زور دیا گیا ہے کہ انتخابات کے شراکت داروں کے ساتھ تمام مراحل پر باقاعدہ ملاقاتیں کی جائیں اسی طرح انتخابات کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کو پولنگ اسٹیشن کے باہر تک محدود کیا جائے تاکہ سکیورٹی کی صورتحال کو برقرار رکھا جاسکے ۔ آن لائن مواد سمیت میڈیا کی قانونی فریم ورک کا جائزہ لیا جائے تاکہ آزادی اظہار رائے کے بین الاقوامی معیار کے ساتھ مطابقت یقینی بنائی جاسکے ۔

سفارشات کے مطابق جنرل نشستوں کے لئے مقابلہ کرنیوالی خواتین کی نمائندگی میں اضافے کے لئے اقدامات کیے جائیں ، تمام طبقوں کے لئے یکساں انتخابی فہرستیں تیار کی جائیں تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق تمام شہریوں کا برابری کی سطح پر اندراج ہو سکے ، قومی و بین الاقوامی مشاہدہ کاری کو قانون شامل کیا جائے تاکہ مشاہد کاروں اور میڈیا کی تمام مراحل تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے ۔

انہوں نے کہاکہ حالیہ انتخابات کے بعد کئی شراکت داروں نے مشن کو آگاہ کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے دوبارہ جائزہ اور مزید انتخابی اصلاحات کے لئے ایک نئی پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جس کی ہم حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ حالیہ انتخابات 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں پرامن تھے ۔