سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کراچی کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمدسے متعلق کیس کی سماعت،

بحریہ ٹائون کو الاٹیوں سے کی گئی وصولیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب

جمعرات 29 نومبر 2018 23:29

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کراچی کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمدسے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون کراچی کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمدسے متعلق کیس میں بحریہ ٹائون کو الاٹیوں سے کی گئی وصولیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے بحریہ ٹائون کو ہدایت کی ہے کہ عدالتی حکم کی تعمیل کرکے عدالت کو رپورٹ پیش کی جائے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ جائزہ لے کرعدالت کو بتائیں کہ کہیں عدالتی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ، عدالت نے ڈائریکٹر سپارکو کوبحریہ ٹاون کراچی کے لئے آوٹ پلان کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کی ہدایت کی اورحکم جاری کیاکہ بحریہ ٹائون عدالتی حکم کے مطابق رجسٹرار آفس کے اکائونٹ میںپیسہ جمع کرائے۔

جمعرات کو جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی عملدرآمد بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پربحریہ ٹائون کراچی سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ رہائشی نے عدالت میں کھڑے ہوکر کہا کہ ان کی بات سنی جائے ، وہ کراچی سے اپنی بات کہنے کیلئے عدالت میں آئے ہیں، جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کیا اوران کوبیٹھنے کی ہدایت کرتے ہوئے بحریہ ٹاون کے وکیل علی ظفر سے کہا کہ علی ظفر یہ آپ کا بندوبست لگتا ہے، بحریہ ٹاون کوبتادو کہ عدالت پر دباو ڈالنا چھوڑ دے۔

جس پرفاضل وکیل نے بتایا کہ عدالتی حکم پر پوری طرح عمل کیاجا رہا ہے ، کئی احکامات پر عمل درآمد کر لیا گیا ہے، اس کے ساتھ عدالت کے طلب کرنے پر بحریہ ٹاون کا مکمل لے ائٓوٹ پلان عدالت میںجمع کرا دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے استفسارکیا کہ کیا بحریہ ٹائون نے الاٹیوں سے وصول کی گئی رقم کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں، جس پربیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم الاٹیوں سے کی گئی وصولیوں کی تفصیلات ابھی تک جمع نہیں کر اسکے، جس پرفاضل جج نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے زمین کی قیمت اور الاٹیوں سے وصولیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں تو فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہو گا،جس پرعلی ظفر نے عدالت کوآگاہ کیاکہ بحریہ ٹائون نے ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے علاوہ بھی مزید زمین خریدی ہے اور ہمارے پاس وہاں ایم ڈی اے کی زمین کے علا وہ بھی رقبہ موجود ہے۔

تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہا کہ ہم نے فیصلے پر عملدرآمد ہی کرانا ہے، بتایا جائے کہ کیا بحریہ ٹاون زمین کی قیمت سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا، اگرنہیں کرنی تو عدالت کو بتا دیاجائے، تاکہ عدالت کسی تیسرے فریق کے ذریعے بحریہ کے اکائونٹس کا آڈٹ کرائے گی، جب تک بحریہ ٹائون اکائونٹس کی تفصیلات فراہم نہیں کرتا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب نے فاضل وکیل سے استفسارکیا کہ بحریہ ٹائون میں کمرشل اور رہائشی پلاٹس کے کیا ریٹ رکھے گئے ہیں یہ بحریہ ٹاون ہی عدالت کوبتائے گا ، جس پربحریہ ٹائون کے وکیل نے بتایا کہ الاٹیوں سے وصولی کے بارے میں ہم نے بیان حلفی جمع کرا دیا ہے، جس کی کاپی سندھ حکومت کو بھی فراہم کر دی گئی ہے، اس کے ساتھ عدالت میں ملک ریاض کا بیان حلفی جمع کرا دیا گیا ہے ، سماعت کے دوران بحریہ ٹائون کے دوسرے وکیل اعتزاز احسن نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ بحریہ ٹائون نے جتنی زمین فروخت اور جتنی وصولیاں کی ہیں وہ تفصیلات ہم پہلے ہی فراہم کر چکے ہیں، توفاضل جج نے کہا کہ کیا بحریہ ٹاون نے زمین مفت دی ہے الاٹیوں کو ہمیں تواب تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ بحریہ ٹائون کا کل رقبہ کتنا ہے ، جس پراعتزاز احسن نے ان سے بتایا کہ پلاٹ اور اپارٹمنٹ فروخت کیے گئے ہیں، سماعت کے دوران نیب کے پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاون کے مالکان اور افسران ابھی تک تفتیش میں شامل نہیں ہوئے، تو جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ نیب کے مطابق بحریہ ٹائون کارقبہ 12000 ایکڑہے جبکہ بحریہ ٹاون نے 18000 ایکڑ رقبہ بتایا ہے آپ کو تو اس سے آگے جانا چاہیے تھا۔

جس پرایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ فیصلے کے مطابق زمین کی قیمت کا تعین پرائس کمیٹی ہی کرے گی، جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ حکومت سندھ کے مطابق اس نے بحریہ ٹائون کو 17000 ایکٹر زمین دی، لیکن سندھ حکومت نے اپنی زمین کا دفاع ہی نہیں کیا۔ بعدازاں عدالت نے بحریہ ٹائون سے الاٹیوں سے وصولیوں کی تفصیلی رپورٹ پییش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے کہاکہ وہ اس بات کاجائزہ لے کرعدالت کوآگاہ کرے کہ کہیں عدالتی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ہے، بعدازاں مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گی۔