آزاد کشمیر کو تعلیمی اور اقتصادی طور پر ترقی دے کر کشمیر کا روشن چہرہ دنیا کو دکھائیں گے،سردار مسعود خان

1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاست نے پاکستان کی مدد سے تعلیم ، صحت ، رسل و رسائل اور مواصلات کے شعبوں میں شاندار ترقی کی لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے حکومت تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے، صدر آزاد کشمیر کی وفد سے گفتگو

ہفتہ 15 دسمبر 2018 15:10

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 دسمبر2018ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کو تعلیمی اور اقتصادی طور پر ترقی دے کر کشمیر کا روشن چہرہ دنیا کو دکھائیں گے ۔ 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاست نے پاکستان کی مدد سے تعلیم ، صحت ، رسل و رسائل اور مواصلات کے شعبوں میں شاندار ترقی کی لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کے لیے موجودہ حکومت اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے ۔

ایوان صدر مظفرآباد میں فارن سروس اکیڈمی میں زیر تربیت 21 دوست ممالک کے جونیئر سفارتکاروں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 40 لاکھ کی آبادی میں پانچ یونیورسٹیز اور ان کے علاقائی کیمپس تین میڈیکل کالج ، دو کیڈٹ کالج سینکڑوں کالجز ، ہزاروں سکولز اور سب سے زیادہ شرح تعلیم اس بات کا ثبوت ہے کہ آزاد کشمیر میں تعلیم ہر دور میں حکومتوں کی ترجیح رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ تعلیمی ڈھانچہ وسیع ہونے کے باوجود آزاد علاقے میں میعاری تعلیمی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اپنے قدرتی حسن و جمال ، لوگوں کی امن پسندی اور مہمان نوازی کے باعث ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے پرکشش علاقہ ہے ۔ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت ریاست کے سیاحتی سیکٹر کو ترقی دے کر اسے سب سے زیادہ منافع بخش صنعت بنانا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے سیاحتی رہداری کے نام سے ایک میگا پراجیکٹ جلد شروع کیا جائے گا جس سے عوام کو روزگار کو بہتر مواقع ملنے کے ساتھ ساتھ اُن کا معیار زندگی بھی بلند ہو گا ۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ سیاحت کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر قدرتی معدنی وسائل سے بھی مالا مال علاقہ ہے جہاں سارا سال بہتے دریا ، پہاڑوں کے اندر مدفون قیمتی اور نیم قیمتی پتھر اور دیگر دہاتیںقدرت کا بیش بہا خزانہ ہیں جن سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے حکومت جامع پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر صدیوں پرانی کثیر المذاہب اور کثیر الروایات کی حامل ثقافت اور کلچر رکھنے والی ایسی ریاست ہے جس میں پر امن بقائے باہمی کا اُصول ہمیشہ کار فرما رہا ہے ۔

حکومت کشمیر کے اس ثقافتی ورثے کو فروغ دینے کے لیے بھی ترجیح بنیادوں پر اقدمات کر رہی ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے وفد کے ارکان کو آگاہ کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی تحریک کو اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی مدد فراہم کرنا آزاد کشمیر کی حکومت کی ترجیح اول ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو طاقت سے کچلنے کے لیے ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے ۔

طاقت کے غرور میں مبتلا بھارتی حکمران جموں و کشمیر کے عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے بلند ہونے والی آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ان مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطا بق پر امن اور سفارتی ذرائع سے جموں وکشمیر کے تنازعہ طے کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت اپنی سات لاکھ قابض فوج کے ذریعے ظلم و جبر اور طاقت کا استعمال کر کے کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرنا چاہتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے مستقبل کا معاملہ جسے کشمیریوں کی منشا اور مرضی کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا ۔ صدر سردار مسعود خان نے غیر ملکی سفارکاروں کو دعوت دی کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے ہر علاقے کا دورہ کر کے اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کریں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام پر ُ امن شہری ہیں جن کا دہشت گردی اور انتہای پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور پر امن شہریوں پر ظلم و جبر کر کے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور مقبوضہ علاقے میں خواتین کو جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارت کی وزارت دفاع بار ہا یہ کہہ چکی ہے کہ مقبوضہ جموںو کشمیر میں 250 حریت پسند موجود ہیںدنیا کو بھارت سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آخر بھارت نے 250 حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سات لاکھ آرمی کیوں بیٹھا رکھی ہے ۔