امریکہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ، پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتا ہے

امریکی کانگریس کے رکن اور ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے ممکنہ چیئرمین بریڈ شیرمین کا بیان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 18 دسمبر 2018 11:49

امریکہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ، پاکستان کے ساتھ کام جاری ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2018ء) : امریکہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا خواہشمند ہے اور نئی حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے بھی کافی پُر اُمید ہے جیسے سابقہ حکومتوں کے ساتھ کام جاری رکھتا تھا۔ ان خیالات کا اظہار ''الیکشن کے بعد پاکستان'' کے موضوع پر کانفرنس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی کانگریس کے رکن اور ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے ممکنہ چیئرمین بریڈ شیرمین نے کیا۔

قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بریڈ شئیرمین نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ امریکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کی مخالف قوتوں کی حمایت کر رہا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ کام کرے گی؟ تو اس پر انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کرتے ہیں، بطور ملک ہم ان حکومتوں سے اسی طرح بات کرتے جیسے وہ موجود ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں فوجی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کی تھی جو جمہوریت کے جواز کا دعویٰ نہیں کرتیں۔ امریکی کانگریس کے رکن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں موجودہ اقتدار کا ڈھانچہ سب سے زیادہ فوجی طاقت کا ڈھانچہ نہیں ہے، جس سے ہم نے پاکستان کے ساتھ معاملات نمٹائے تھے۔ کانفرنس کے دوران امریکہ کی جانب سے پاکستان میں علیحدگی پسند قوتوں کی حمایت کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کانگریس رکن بریڈ شیرمین کا کہنا تھا کہ دوسری حکومتوں کی علاقائی سالمیت کی حمایت کے لیے حکومتوں کا ایک قدرتی رجحان تھا اور میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ امریکہ کی وجہ سے پاکستانی حکومت کو شامل کرکے اس کی علاقائی سالمیت کو تبدیل کرنے کی حمایت کی گئی۔

کانگریس رکن نے کانفرنس میں اپنے خطاب میں پاکستان میں آخری انتخابی عمل میں شفافیت پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی روپوشی کی معلومات دے کر امریکی فورسز کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے امریکی مطالبے کی حمایت دی اور اس بات پر زور دیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کیا جائے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ اُسامہ بن لادن پاکستانی ملٹری اکیڈمی کے قریب رہ رہا تھا لیکن امریکہ اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ جس شخص نے اُسامہ کو ڈھونڈنے میں مدد کی وہ سلاخوں کے پیچھے رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں 5 گھنٹے اجلاس کریں لیکن شکیل آفریدی کے بارے میں نہیں سنیں گے لیکن خارجہ امور کمیٹی کے ایک گھنٹے کے اجلاس ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں بات کیے بغیر نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ان کے اہل خانہ کو امریکہ لانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے اہم ہے۔