سپریم کورٹ کا نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر چھ ہفتوں کیلئے ضمانت پر رہائی کا حکم

نواز شریف کا ضمانت کے دوران بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی، عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نیب پراسیکیوٹر نے درخواست کی مخالف اور نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے وکیل نے دلائل دیئے نواز شریف کی ضمانت کی مدت قابل توسیع ہے، عدالت عظمیٰ کی 50 لاکھ روپے کا مچلکہ جمع کرانے کی ہدایت آپ چاہتے ہیں نواز شریف کا تناؤ دور ہو، اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ تناؤ ہے،چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ

منگل 26 مارچ 2019 16:43

سپریم کورٹ کا نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر چھ ہفتوں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مارچ2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر چھ ہفتوں کیلئے ضمانت پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نواز شریف کا ضمانت کے دوران بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی جس کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی نے درخواست کی مخالفت کی جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے ضمانت کے حق میں دلائل مکمل کیے۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز نے مشاورت کی اور چیف جسٹس نے فیصلہ تحریر کیا ۔دلائل سننے کے بعد کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ عدالت نے 6 ہفتوں کیلئے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 50 لاکھ روپے کا مچلکہ جمع کرانے کی ہدایت کی ۔

(جاری ہے)

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کی مدت قابل توسیع ہے، اگر ضرورت پڑے تو ضمانت میں توسیع کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوگا،عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کی رہائی کے دن سے چھ ہفتے شمار ہوں گے۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل روسٹرم پر آئے، جہاں سابق وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے موکل کی لندن رپورٹ کے حوالے سے تفصیلات عدالت کو بتائیں اور نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ نقل عدالت میں پیش کی جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اس کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ خط شواہد کے طور پر کیسے پیش ہو سکتا ہے ۔ وکیل نوازشریف خواجہ حارث نے کہاکہ میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہا،انہوںنے کہاکہ نواز شریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف اس سٹیج پر ہیں جہاں ان کی دل کی بیماری مزید بڑھ سکتی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ان کے دل کا مرض پیچیدہ ہے ،ان کو انجیوگرافی کرانے کی ضرورت ہے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ شوگر اور ہائپر ٹیشن کو مسلسل دیکھنا ضروری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ان کو گردوں کی بیماری بھی اسٹیج تھری ہے ، چوتھے درجے پر ڈائیلانس درکار ہے اور پانچویں پر گردے فیل ہو جاتے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہم ڈاکٹر لارنس کی بات کو من وعن تسلیم کرلیں ،کیا ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ان کے مرض کا کوئی ثبوت نہیں ڈاکٹر لارنس نے اگر گردوں کے مرض کو اسٹیج فور کا مرض کہا ہوتا تو کیا ہم اسے بھی قبول کرلیں ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ میڈیکل گرائوند پر کیس بنا رہے ہے اور ہمارے پاس صرف ایک ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔وکیل نواز شریف نے کہاکہ ہمارے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے بھی نواز شریف کے گردوں کے مرض کواسٹیج تھری قرار دیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ 17 سال سے میاں نواز شریف کو یہ بیماریاں لاحق ہے ،ان بیماریوں کے باوجود انھوں نے خاصی ایکٹیو روٹین گزاری ہے ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ضمانت کے لئے میڈیکل گرائونڈ تب ہی بنے گا جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو ۔وکیل خارجہ حارث نے کہاکہ خط میں صرف میڈیکل ہسٹری ہے، جیل میں نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ نوازشریف کی رپورٹس کا جائزہ لے چکے ہیں۔ وکیل نواز شریف نے کہاکہ ہائیکورٹ میں میرٹ پر درخواست بغیر دلائل واپس لے لی تھی، نوازشریف کی طبیعت خراب ہونے پر طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی۔

انہوںنے کہاکہ 5 میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کی طبیعت کا جائزہ لیا۔خواجہ حارث نے کہاکہ ہر بورڈ نے نوازشریف کو اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا فوجداری مقدمات میں محض ایک خط کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے،آپ کا تمام انحصار ڈاکٹر لارنس کے پر ہے،آپ جو بھی ہسٹری بتا رہے ہیں یہ تو پرانی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کی انجائنا کی تشخیص کی ہے۔

خواجہ حارث نے کہاکہ اس بیماری کا حملہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے،اس سے قبل بھی نواز شریف کو دو اٹیکس ہوچکے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ شریانوں میں رکاوٹ کے باعث ہر وقت اٹیک کا خطرہ ہے۔انہوںنے کہاکہ اسی بنیاد پر نواز شریف کی انجیوگرافی کا کہا گیا تھا، اگر ا جیو گرافی نہ کی گئی تو ان کی صحت کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔وقفے کے بعد سماعت دوبار شروع ہوئی تو وکیل نوازشریف نے کہاکہ نواز شریف کی صحت خطرے میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹس میں ادویات جاری رکھنے کا کہا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹ میں کسی خطرناک صورتحال کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹر لارنس کے خط پر مزید انحصار نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف کو دل کا عارضہ 2003 سے ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے سوال صحت کو لاحق موجودہ خطرات کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل رپورٹس سے جائزہ لے رہے ہیں کہ صحت کو خطرہ ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ موجودہ قانون کے مطابق علاج ممکن نہ ہو تو ضمانت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کی موجودہ صورتحال پر فوکس ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ 2011 میں بھی نواز شریف وینٹی لیٹر پر رہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ نوازشریف کی سابقہ اور موجود میڈیکل ہسٹری بتائیں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہی ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری سے صورتحال کیسے مختلف ہے،صحت کیسے بگڑرہی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں، انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ تمام بورڈز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔ سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس موجود ہے،ڈاکٹر عاصم حسین عدالت کے اجازت سے بیرونی ملک علاج کیلئے گئے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم حسین کو سزا نہیں ہوئی تھی۔خواجہ حارث کی جانب سے ذہنی دبائو کے حوالے سے گفتگو پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ صرف نوازشریف کو ذہنی دباؤ سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہر قیدی ذہنی دباؤ کا خاتمہ چاہتا ہے، اگرضمانت دی جاتی ہے توذہنی دباؤ ختم کرنے کیلئے کتنا وقت چاہیی ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ذہنی دباؤ ختم ہونے کیلئے کئی ہفتے چاہیے ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان میں بہترین ڈاکٹرز اور مشینری ہسپتالوں میں موجود ہے ۔انہوںنے کہاکہ آخر نوازشریف ایک سزا یافتہ شخص ہے، جو سزا یافتہ نہ ہو ذہنی دباؤ تو اسے بھی ہے۔انہوںنے کہاکہ اکیسویں صدی کا اصل مسئلہ ہی ذہنی دباؤ ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج ہر مریض کا حق ہے، یہ نوازشریف کی آخری اینجیو گرافی بھی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کسی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ نوازشریف کی بیماری انکی زندگی کیلئے خطرہ ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ سب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ جیل کی بجائے نوازشریف کا ہسپتال میں علاج ہو۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے تحت جیل سپرنٹنڈنٹ نوازشریف کو ہسپتال منتقل کر سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ان رپورٹس کے بعد آپ ہسپتال منتقل ہونے پر مزاحمت کیوں کر رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہاکہ جلاوطنی کے دوران نوازشریف کا بیرون ملک علاج ہوتا رہا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نواز شریف کی موجودہ رپورٹ میں کوئی خطرے کی بات نہیں،پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے کہ اکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ خرابی صحت کے بنیاد پر زندگی کو خطرہ لاحق تو نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے طے کیا ہیے کہ اگر ملزم کی صحت خراب ہو اور جیل میں سہولیت نہ ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں بتائیں کہ کس طرح نواز شریف کے زندگی کو جیل میں خطرہ ہے۔وکیل نوازشریف نے کہاکہ نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہیے،انجوگرافی ہونی ہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سنا ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری سے مریض 20 سال جوان ہو جاتا ہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو انجیو گارفی کے ساتھ نگہداشت چا ہیے۔ وکیل نوازشریف نے کہاکہ دل کو خون پہنچان والی شریان 43 فیصد بند ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان کے ہسپتال اس قابل ہیں کہ نواز شریف کا علاج ہو سکے،آپ جس ہسپتال کا کہیں گے عدالت اس میں علاج کے اجازت دیگی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرے موکل کو ضمانت کی ضرورت ہیے،جیل میں قید کی وجہ سے امراض شدت اختیار کر چکے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کی صحت سنگین ہے ،ضمانت ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ہائی کورٹ کو حکم دیتے ہیں کہ کیس کو سنے۔

خواجہ حارث نے کہاکہ ہائی کورٹ میں جلد بازی کی وجہ سے مقدمہ متاثر کو سکتا ہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ2 ہفتوں ہائی کورٹ کو فیصلہ کر سکتی ہے،کیا دبائو 2 ہفتوں میں ختم ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو ذہنی دبائو سے چھٹکارہ ملے کہ علاج ہو سکے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر نواز شریف ذہنی دبائوسے باہر آئے تو پاکستان میں علاج ہو سکتا ہیے اگر نہیں تو بیرونی ملک کسے کون سا ڈاکٹر علاج کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مرض شدید ہے تو ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہ اکہ اگر ایسا ہیے تو ضمانت دی جائے کہ دبائو ختم ہو جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بیماری ضمانت کی بہترین بنیاد ہے اگر غلط استعمال نہ جائے،آپ کی میڈیکل رپوٹ میں اعتماد کی کمی ہے،کوئی کچھ کہتاہے تو کچھ اور۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ ذہنی دبائو ختم کرنے کے لئے ضمانت دی جائے۔

سماعت کے دور ان نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کسی بھی رپوٹ میں نواز شریف کے بیمارے کے بارے میں نہیں لکھا گیا،صرف چیک آپ کی سفارش کی گئی ہے ، ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہاکہ چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، نواز شریف کو کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ اینجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کرتے رہے، کسی رپورٹ میں نہیں کہاگیا انہوں نے علاج کروانے سے انکار کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کیا وجہ ہے کہ نیب کے پاس جاتے ہی لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں،آپ کو تو چاہیے اچھا سا ہسپتال بنا لیں۔چیف جسٹس نے اسد منیر کی خودکشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ نیب کا ایسا رویہ ہے کہ اب تو لوگ خودکشیاں کرنے لگ گئے ہیں،ہم اس معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 8 ہفتے کے بعد آپ واپس آ جائیں گے، 9 اپریل کو ہائیکورٹ میں آپ کی اپیل پر بھی سماعت ہے، اگر وہاں سے فیصلہ آپ کے خلاف آ جاتا ہے تو کیا کریں گے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو ضمانت دیتا ہوں ہائیکورٹ سے اتنی جلدی فیصلہ نہیں ہو سکتا، ابھی تک صرف نوٹس ہوئے ہیں جو مجھے موصول بھی نہیں ہوئے، جہاں تک علاج کا تعلق ہے میرے موکل کی زندگی داؤ پر ہے، علاج مکمل ہونے کے بعد خود کو عدالت کے حوالے کردیں گے۔وکیل نیب نے کہاکہ نواز شریف 18 فروری سے مسلسل 24 گھنٹے طبی ماہریں کی نگرانی میں ہیں،نوازشریف کی دل کی شیریانیں نارمل ہیں۔

وکیل نیب نے کہاکہ گزشتہ پانچ ہفتوں میں نوا شریف کی صحت کی خرابی سے متعلق کوئی بات ریکارڈ پر نہیں آئی۔ خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 8 ہفتے دے نواز شریف علاج کرا کر واپس آجائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دو ہفتے بعد تو آپ کی اپیل پر سماعت ہونی ہے۔ خواجہ حارث نے دو ماہ کی ضمانت کی استدعا کر تے ہوئے کہاکہ اگر نواز شریف باہر آئے تو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

وکیل نوازشریف نے کہاکہ سپریم کورٹ علاج کے لیے مناسب وقت کا تعین کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امکان ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہفتوں کیلئے ضمانت دے دی جائے، بائی پاس بھی تین دن میں ہوجاتا ہے، دنیا کی بہترین دستیاب مشینیں پاکستان میں موجود اور ہسپتال بھی موجود ہیں، ہم دو سے تین ہفتے دیں گے اس عرصے کے بعد آپ کو واپس جانا ہوگا، سوچ لیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کہیں نہیں جارہے ان کا پاسپورٹ عدالت میں موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے موکل کا تناؤ دور ہو، ٹرائل میں تو ویسے ہی تناؤ ہوتا ہے، ابھی تک جن کے ٹرائل نہیں ہوئے وہ بھی تناؤ میں ہیں اور اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ تناؤ ہے۔

سماعت کے دور ان نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جب کلثوم نواز زیر علاج تھیں تو کہا گیا وہ بیمار نہیں اور جب وہ فوت ہوگئیں تو کہا گیا وہ پہلے ہی مر گئی تھیں۔دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے درخواست ضمانت منظور کرلی۔عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کر کے درخواست ضمانت کو منظور کی گئی، فیصلے کے مطابق نواز شریف اس دوران اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرواسکیں گے،عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کی صورت میں ہائیکورٹ قانون پر عملدرآمد کروائے گی، فیصلے کے مطابق 6 ہفتوں بعد نواز شریف کو اپنے آپ کو حوالے کرنا ہوگا، اگر 6 ہفتوں میں انہوں نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو انہیں گرفتار کیا جائیگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نواز شریف کے سرنڈر کرنے کے بعد دوبارہ ضمانت کی ضرورت ہوئی تو ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔فیصلے کے مطابق میاں محمد نواز شریف کو دو لوگوں کی شخصی ضمانت دینا ہو گی تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔خیال رہے کہ 19 مارچ کو سپریم کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطل کرکے ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تھی، اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک کیلئے ملتوی کردی تھی۔