سینیٹ کی فنکشنل برائے انسانی حقوق کا اجلاس

ملک عطا اللہ خان اور اس کے خاندان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جانے، اسٹیٹ لائف فیلڈ ایسوسی ایشن کی جانب سے کیے گئے احتجاج کے معاملے کے علاوہ اسلام آباد کے علاقے میں چک شہزاد میں ہونے والے حالیہ واقعہ میں 10 دس سالہ فرشتہ کے اغوا، ریپ اور قتل کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعہ 24 مئی 2019 22:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 مئی2019ء) سینیٹ کی فنکشنل برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں منعقد ہوا۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے 30 اپریل2019 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ برائے ملک عطا اللہ خان اور اس کے خاندان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جانے، اسٹیٹ لائف فیلڈ ایسوسی ایشن کی جانب سے کیے گئے احتجاج کے معاملے کے علاوہ اسلام آباد کے علاقے میں چک شہزاد میں ہونے والے حالیہ واقعہ میں 10 دس سالہ فرشتہ کے اغوا، ریپ اور قتل کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں اسٹیٹ لائف فیلڈ ایسو سی ایشن کی احتجاج پر تفصیلی بحث کی گئی اور ڈائریکٹر انشورنس سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی فیلڈ آفیسرز کی برطرفی پر کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔

(جاری ہے)

کمیٹی اجلاس میں فیلڈ آفیسرز ایسو سی یشن کے عہدیداران نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایس ای سی پی جب سے ریگولیٹری اتھارٹی بنی ہے ہماری مشکلات میں اضافہ ہے۔

اسٹیٹ لائف کسی کمپنی یا فرد کا نہیں ریاست کا ادارہ ہے۔1993سے اب تک نقصان نہیں ہوا،کہیں نقصان ظاہر کیا جا رہا ہے تو ایس ای سی پی کی نا اہلی ہے۔ ملازمین چار ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں،منہ سے نوالہ بھی چھین چکے ہیں۔جس پر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اسٹیٹ لائف نے کمیٹی کو بتایا ہمارے محدود اختیارات ہیں،نجی اور سرکاری کمپنیوں کیلئے ایک ہی پالیسی ہے۔

ریلیف دینے کے حوالے سے بورڈ ہی کچھ کر سکتا ہے۔بورڈ نے معافی مانگنے والے ملازمین کو بحال کرنے کی پیشکش کی ہے۔بہت سارے لوگ واپس بھی آچکے ہیں۔کچھ لوگوں نے بدتمیزی بھی کی تھی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریگولیٹر کو یہ ہدایت نہیں دے سکتے کہ کسی کمپنی کو آف لوڈ کرنے کیلئے ضروری اقدامات نہ اٹھائے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عید کیلئے ان کو کچھ ریلیف دیا جائے۔

سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہاسٹیٹ لائف پاکستان کادوسرے اداروں سے زیادہ منافع بخش ادارہ ہے،ایک دوسرے سے باہمی مشاورت سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ سینیٹر عثما ن خان کاکڑ نے کہا کہ ادارہ ایک ارب کے منافع میں ہیں،بہانے پر لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔حکومت اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کی نجکاری کرنے جا رہی ہے اس لئے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں کابینہ کا ایک بندہ اس کو خریدنا چاہتا ہے۔

کمیٹی نے اسٹیٹ لائف فیلڈ افسران کو عید کیلئے فوری ریلیف دینے کی سفارش کردی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بھی اٹھایا گیا ہے اور کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث ہے جس پر متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ تینوں فورمز کا مشترکہ اجلاس بلا کر معاملے کا حل نکالا جائے گا۔

کمیٹی اجلاس میں ڈپٹی کمشنر باجوڑ عثمان محسود نے باجوڑ کے رہائشی عطائ اللہ کی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے بارے میں فنکشنل کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کسی بھی شخص کے شناختی کارڈ کو بلاک نہیں کرسکتے۔شناختی کارڈ خفیہ ادارے بلاک کرتے ہیں۔ان کے شناختی کارڈ پہلے متعلقہ افسر کی جانب سے تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے بلاک کئے گئے۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس مسئلے سے دوچار ہے۔شناختی کارڈ بلاک کرتے ہوئے لوگوں کو سیاسی انتقام کانشانہ بنایا جاتا ہے۔جس پر ڈی جی اپریشن نادرا نے کمیٹی کو بتایا کہ سات قسم کی ڈاکومنٹس دکھا کر شہریت کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اس وقت ایک لاکھ تیس ہزار شناختی کارڈ بلا ک ہیں جو تین لاکھ کے قریب تھے۔ نادرامیں اس وقت 14کروڑ سے زائد شہری رجسٹرڈ ہیں۔

ہمارے اوپن بارڈر کی وجہ سے کچھ لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی ہے۔یہ تاثر درست نہیں کہ صرف قبائلی اضلاع کے لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک کئے جاتے ہیں۔کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے بھی بہت کیسز ہیں۔ جس پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کسی بھی شخص کو شہریت سے محروم کرنا جرم ہے۔ضیا ئ الحق نے جعلی شناختی کارڈ کا نظام متعارف کرایا۔ ملک بھر میں لوگوں کو ان مسائل کا سامنا ہے انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ہو رہی ہے۔

جنگل کا قانون بن چکا ہے۔ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بچے نہ سکول جا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ سفر کر سکتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر باجوڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے اور لیٹر جاری کر دیا گیا ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 1.23 لاکھ بلاک شناختی کارڈز کا ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کیا جائے اس کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ کمیٹی اجلاس میں معصوم گیارہ سالہ فرشتہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کے حوالے سے آئی جی پولیس اسلام آباد عامر ذوالفقار نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ 15مئی کوبچی اغوا اور16 کو رپٹ درج ہوئی اور 19 مئی کو ایف آئی آر درج کی گئی۔

20 مئی رات کو گھر سے 6 سی7 کلو میٹر کے فاصلے پر بچی کی لاش ملی۔اتنی دور لاش کیسے پہنچی اس بارے تفتیش کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او کو بلاتاخیر خود مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا۔ان کو عہدے سے معطل کر کے مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ اس کیس میں ڈی ایس پی کو بھی معطل کیا گیا ہے اور ایس ایس پی کو بھی او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا گیا ہے جس کی رپورٹ 28 مئی تک متوقع ہے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

آئی جی نے کہا کہ زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ آیا یہ صرف قتل تھا یا زیادتی بھی ہوئی۔انفرادی بیوقوفی کی وجہ سے ادارہ بدنام ہوا ہے۔کسی بے گناہ کو سزائ نہیں ہو گی اور نہ ہی گناہ گار بچ پائے گا۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اس واقعہ کے بارے میں پولیس کی جانب سے کوتاہی کی رپورٹ ہوئی ہے۔

ایف آئی آر درج کرانے میں تین دن کی تاخیر کیوں ہوئی ۔ ایف آئی آر درج کرانے کیلئے تھانے جانے والے لواحقین سے تھانے کی صفائی کروائی گئی۔سینیٹرجہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بدقسمتی سے پولیس ریفارمز نہیں لائی جا سکی۔پولیس کیلئے اخلاقی تربیت کے حوالے سے ٹریننگ دی جاتی ہے۔جس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ پولیس کی ٹریننگ اور ورکنگ میں بڑا فرق ہے۔

اس وقت وفاقی پولیس کو بہت بڑا چینلج کا سامنا ہے۔وفاقی پولیس کی بھرتی میں مکمل میرٹ کا ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔متاثرہ فریق کے وکیل نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس ایچ او نے پرچہ دراج کرانے سے پہلے تفتیش شروع کی۔ اعلی عدالت کے مطابق ایف آئی آر سے پہلے تفتیش مشکوک ہے۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے حکومت نے پچاس لاکھ کا اعلان کیا تھا مگر اب اس کوکم کر کے بیس لاکھ کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑنے کہا کہ یہ بہت بڑا واقعہ ہے،حکومت کا رویہ افسوس ناک ہے۔ جلد از جلد انکوائری مکمل ہونی چاہئے۔پولی کلینک انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم میں تاخیر کی اس کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔سینیٹرکامران مائیکل نے کہا کہ پولیس سمیت وزارت انسانی حقوق کو بھی بے حسی کا دامن چھوڑنا ہو گا۔متعلقہ وزیر اور وزارت کا ایک بندہ بھی متاثرین سے تعزیت و داد رسی کیلئے نہیں ملا۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہاکہ یہ بدقسمتی ہے جب تک شدیداحتجاج نہ ہو تو بڑے سے بڑے جرم بھی سامنے نہیں آتا۔اس واقعے کو سیاست کی نذر ریاست نے خود کیا۔پولیس نے ایک ہی رات میں احتجاج کرنے والی خاتون کے خلاف چار ایف آئی آر کاٹی۔فنکشنل کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد سے وفاقی پولیس سے تعصبات کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔

فنکشنل کمیٹی نے واقعے کا سوموٹو نوٹس لیا اور آئی جی اسلام آباد پولیس سے واقعے بارے تفصیلی آگاہی حاصل کی اور جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ بھی طلب کی گئی۔کمیٹی نے وزیر انسانی حقوق اوروزارت انسانی حقو ق کی طرف سے متاثرین کی داد رسی کیلئے نہ جانے پر شدید تشویش کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ وزیراور وزارت کے اعلیٰ حکام کو عوام کی توقعا ت پر پورا اترنا چاہیے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر ز کامران مائیکل، ثنا جمالی، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، محمد عثمان خان کاکٹر، کیشو بائی کے علاوہ اراکین قومی اسمبلی محسن ڈاوڑ اور علی وزیر، آئی جی اسلام آبا د پولیس عامرذوالفقار خان، ڈی جی انسانی حقوق محمد ارشد، جوائنٹ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ملک کامران اعظم، ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس وقار الدین، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی، ڈی سی اسلام آباد، ڈی سی باجوڑ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔