Live Updates

لوگوں کے کہنے پر کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے. چیف جسٹس

کمیشن کی فائنڈنگ پر کوئی عدالت نوٹس نہیں لے سکتی‘ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں. احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 16 جولائی 2019 10:47

لوگوں کے کہنے پر کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے. چیف جسٹس
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 جولائی۔2019ء) سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی مبینہ متنازع ویڈیو لیک سے متعلق درخواست پر سماعت جاری ہے‘ وکیل کی جانب سے اس معاملے پر کمیشن کا مطالبہ کیا گیا ہے. سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ا?صف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ وکیل اشتیاق احمد مرزا کی جانب سے چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کر رہا ہے.

(جاری ہے)

عدالت عظمیٰ میں معاملے کے حقائق کی مکمل تحقیقات کے لیے مزید 2 درخواستیں دائر کردی گئی ہیں، ان نئی درخواستوں میں سے ایک ایڈووکیٹ سہیل اختر نے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے توسط سے دائر کی ہے جبکہ دوسری ایڈووکیٹ طارق اسد سے خود دائر کی ہے. عدالت میں سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیے کہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کے ذریعےعدلیہ پر سوالات اٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے، لہٰذا عدالت اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داران کا تعین کرے.

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دباﺅ میں کام کر رہی ہے. وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں.

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہا، لہٰذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو. وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو، جس پر وکیل نے کہا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سارے جج ایسے ہیں، سارے سیاستدان ایسے ہیں.

چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیا دیکھے، اس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن سچائی کو دیکھے کہ اگر الزام ثابت ہو تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے. دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے بیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے، وزیر اعظم عمران خان نے بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ عد لیہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس لینا چاہیے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل نے بھی یہی مطالبہ دہرایا‘وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے، ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب سے بنی نوع انسان کی پیدائش ہوئی ہے، سچ کی تلاش جاری ہے، اگر یہ سچ تلاش کرنا ہے تو پھر جن ججوں نے مرکزی اپیل سنی ہے وہ کیا کریں گے. چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ پابند ہو جائے گی، پھر ہائی کورٹ کیسے کارروائی کرے گی‘اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ کمیشن کی فائنڈنگ پر ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو اسی طرف لے کر آنا چاہ رہا تھا، کمیشن کی فائنڈنگ پر کوئی عدالت نوٹس نہیں لے سکتی.

اس دوران درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دینا شروع کیے. اکرام چوہدری نے دلائل دیے کہ مریم نواز کا بیان ہے کہ نواز شریف کے خلاف دباﺅ پر فیصلہ کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں نواز شریف کا بیان اور جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی پڑھا. وکیل نے کہا کہ کسی ادارے پر سے اعتبار اٹھنا بذات خود بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ان جج کے بیان کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟‘اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر عدلیہ سے متعلق بیانات جاری رہے تو پھر ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے میں دباو¿ ہوگا. سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے‘انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے، اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرے.

اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو الزامات جج پر لگائے گئے ہیں، اس معاملے کو کون دیکھے گا، کیا وہ جج خود دیکھے گا جس پر الزامات ہیں. سماعت کے دوران وکیل نے استدعا کی فوجداری اور سائبر قوانین کے تحت عدلیہ معاملے کی تحقیقات کروائے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں.

وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ بیانات اور پھر جوابی بیانات کی وجہ سے عدلیہ کی تضحیک ہورہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں‘بعد ازاں دونوں درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا. واضح رہے کہ آج ہونے والی سماعت کے پیش نظر سپریم کورٹ کے احاطے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں.

آج ہونے والی سماعت کی درخواست سماجی کارکن اشتیاق مرزا نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو عدلیہ کی آزادی، وقار، عزت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے چاہئیں. درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری تھا کیونکہ یہ درخواست گزار کا حق ہے کہ اس کی اپنی زندگی، آزادی اور ملکیت سمیت تمام بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ ہو‘عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات نے یہ تاثر دیا کہ ملک میں عدلیہ آزادانہ کام نہیں کررہی اور اسے مخصوص حکم کے تحت بلیک میل اور دباﺅ ڈالا جاتا ہے.

اسی طرح درخواست گزار سہیل اختر نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ محکمہ کو حکم دے کہ وہ سامنے آنے والی ویڈیو کلپس اور پرنٹ میڈیا میں شائع خبروں کی تحقیقات کا آغاز کریں اور اسے فارنزک معائنے کے لیے بین الاقوامی طرز کے ادارے کے پاس بھیجا جائے. ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ عدالت وفاقی حکومت، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، نوائے وقت اور احتساب عدالت کے جج کو طلب کرے اور مریم نواز کی 6 جولائی کی پریس کانفرنس جس میں جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیوز جاری کی گئی تھیں سے متعلق ضروری مواد فراہم کریں.
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات