پھٹی کی رسد میں اضافے کے باعث روئی کے بھا ؤمیں 150 تا 200 روپے کا اضافہ

اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 8200 روپے کے بھا ؤپر بند کیا

ہفتہ 14 ستمبر 2019 19:14

پھٹی کی رسد میں اضافے کے باعث روئی کے بھا ؤمیں 150 تا 200 روپے کا اضافہ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 ستمبر2019ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں دلچسپی اور پھٹی کی رسد میں نسبتا اضافہ کے باعث روئی کے بھا ؤمیں 150 تا 200 روپے کا اضافہ ہوا ہفتہ کے دوران تو محرم الحرام کی تعطیلات کے سبب پھٹی کی چنائی نہیں ہونے کے سبب پھٹی کے بھا ؤمیں فی 40 کلو 50 تا 100 روپے کا اضافہ رہا جبکہ کام کاج بھی کم رہا لیکن جمعرات کے بعد پھٹی کی رسد میں اضافہ ہوگیا اور کاروباری حجم بھی بڑھ گیا۔

بارشوں کے باعث صوبہ سندھ میں پھٹی بارشی ہونے کی وجہ سے پھٹی اور روئی کا بھاؤ نسبتا کم رہا۔ روئی کا بھاؤ فی من 7700 سے 8150 روپے پھٹی کا بھا ؤفی 40 کلو 3300 تا 3650 روپے بنولہ اور کھل کا بھاؤ کم رہا جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھا ؤاچھی کوالٹی کے سبب 8350 تا 8650 روپے رہا جبکہ پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3400 تا 3850 روپے رہا صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 8300 تا 8550 روپے رہا پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3900 تا 4300 روپے رہا اچھی کوالٹی کے سبب بلوچستان کی روئی 200 تا 300 روپے بڑھ گئی۔

(جاری ہے)

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 8200 روپے کے بھا ؤپر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ چین اور امریکا کے مابین اقتصادی تنازع میں کچھ نرمی آنے کی خبروں کی وجہ سے بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں اضافہ کا رجحان نظر آیا نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھا میں تقریبا 3 امریکن سینٹ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ چین اور بھارت میں روئی کے بھا اضافہ رہا۔

USDA کی ہفتہ وار رپورٹ میں گزشتہ ہفتہ کی نسبت روئی کی برآمد میں کمی واقع ہوئی اور ماہانہ رپورٹ بھی منفی رہی اس کے باوجود بھا میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس کی بڑی وجہ چین اور امریکا کے اقتصادی تنازع کی کچھ حد تک برف پگھل رہی ہے۔نسیم عثمان نے بتایا کہ گزشتہ دنوں آنے والی بارشوں سے کپاس پیدا کرنے والے کئی علاقوں میں فصل کو نقصان ہوا ہے خصوصی طور پر صوبہ سندھ میں کھڑی فصل پر بارشوں کی وجہ سے نقصان پنجاب کے نسبت زیادہ ہوا ہے کپاس کی کوالٹی اور کونٹیٹی کا نقصان ہوا ہے۔

دوسری جانب بارشوں کے کپاس کی فصل پر کئی جراثیم وائرس اور سنڈی کے حملہ کرنے کی خبریں آرہی ہیں جس میں "ملی بگ" "گلابی سنڈی" "سفید مکھی" وغیرہ شامل ہیں محکمہ زراعت کے اہلکار کاشتکاروں کو فصل کی نگرانی کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور جراثیم کش ادویات کا اسپرے تاکید سے کرنے کا کہ رہے ہیں اس سال کپاس کی فصل ایک کروڑ 20 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہونے کی توقع بتائی جاتی ہے لیکن کپاس کی فصل سے منسلک کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فصل اس سے بھی کم ہوسکتی ہے فی الحال یہ اندازے ہی ہیں صحیح اندازہ اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں لگایا جاسکے گا۔

علاوہ ازیں کپاس کی پیداوار اور اس کی ٹیکنالوجی میں حدت کیلئے پاکستان اور چین کے درمیان تیسری عالمی کانفرنس چین میں گزشتہ روز ختم ہوگئی چائنا اقتصادی نیٹ کے مطابق کپاس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد ماہرین اور دانشوروں نے کانفرنس میں شرکت کی کانفرنس کی کامیابی سے ناصرف زراعت کے شعبہ میں تعاون کو مزید فروغ حاصل ہوگا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان سائنس اور تکنیکی رابطے اور تعاون مزید آگے بڑھیں گے۔

دریں اثنا پاکستان بزنسمین اینڈ انٹلیکچول فورم (PBIF) کے صدر میاں زاہد حسین نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ کپاس کی فصل بڑھانے میں امدادی قیمت مقرر کرنی چاہئے تاکہ کپاس کے کاشتکار کپاس کی فصل بڑھانے میں زیادہ دلچسپی لیں انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر ہورہا ہے بیرونی ممالک سے کپاس درآمد کرنے کیلئے قیمتی ذرے مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے خصوصی طور پر ملک کی معیشت کو نقصان ہورہا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے روئی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جو کہ ٹیکسٹائل ملز کو ادا کرنا ہے لیکن جنرز کے ذریعے جسکی وجہ سے مارکیٹ میں ہیجانی کیفیت ہے خصوصی طور پر جنرز اضطراب میں مبتلا ہیں کیوں کہ کئی ملز تعاون نہیں کر رہے جسکے سبب جنرز کو ہنگامی طور پر اسکا بندوبست کرنا پڑھتا ہے جسکے باعث جنرز کی وافر رقمیں پھنس جاتی ہے کئی جنرز اتنی رقم کی استطاعت نہیں رکھتے انھیں زیادہ تکلیف ہورہی ہے PCGA کے چئیرمین میاں محمود احمد نے گزشتہ دنوں FBR کے چئیرمین اور متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کی تھی انکو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ 10 فیصد سیلز ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکسٹائل ملز سے لیا جائے گا لیکن تاحال اسکے متعلق کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی جسکے سبب جنرز پریشان ہیسنیچر کو PCGA کی منیجنگ کمیٹی کے 15 امیدوار کے 20--2019 کے سالانہ انتخابات منعقد کئے گئے جس میں کئی سالوں کے بعد دو بڑے پینلوں کے درمیان سخت مقابلہ تھا کل ووٹروں کی تعداد 696 جنرز کی ہے جس میں سے 149 جنرز صوبہ سندھ سے اور 547 جنرز صوبہ پنجاب سے ہیںہماری رپورٹ مرتب ہونے تک نتائج نہیں آئے تھے۔

دریں اثنا مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر شدید بحرانی کیفیت سے دو چار ہیں خصوصی طور پر زبردست مالی بحران ہیں۔