آزادی مارچ اور دھرنا ; مولانا فضل الرحمان نے فرقہ پرستی سے بالاتر ہو کر رابطے شروع کر دئے

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے رابطہ کیا جانے پر حکومتی حمایت یافتہ علماء نے مکمل خاموشی اختیار کر لی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 11 اکتوبر 2019 12:04

آزادی مارچ اور دھرنا ; مولانا فضل الرحمان نے فرقہ پرستی سے بالاتر ہو ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11 اکتوبر 2019ء) : سربراہ جمیعت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے 31 اکتوبر کو آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس کے لیے تیاریوں کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ تاہم آزادی مارچ اور دھرنے کو ہر صورت کامیاب بنانے کے لیے مولانا فضل الرحمان نے فرقہ پرستی سے بالاتر ہو کر کئی علماء اور مذہبی شخصیات سے رابطے کرنا بھی شروع کر دئے ہیں۔

تاہم مولانا فضل الرحمان کی جانب سے رابطے کیے جانے کے باوجود حکومتی حمایت یافتہ علماء نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اس حوالے سے خفیہ اداروں نے حکومت کو تجاویز پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ فضل الرحمان نے اپنے احتجاجی پروگرام کو کامیاب کرنے کے لیے پنجاب کے مختلف مذہبی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے بھی رابطہ کیا ، اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو مسلم لیگ ن کے علماء و مشائخ ونگ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔

(جاری ہے)

مولانا کے نمائندگان کو ہر ممکن رابطوں کے لیے پنجاب میں سپورٹ حاصل ہے جس کا حکومتی حلقہ کی جانب سے مؤثر جواب نہیں دیا جا رہا ۔ ماسوائے چیئر مین متحدہ علما بورڈ پنجاب علامہ طاہر محمود اشرفی کے اور کوئی بھی حکومت کے حق میں سرعام بات نہیں کر رہا۔ حکومت پنجاب کے ادارے اوقاف میں آئی بی ایم کمیٹی سمیت بیشتر ونگز ایسے ہیں جن میں علما و مشائخ کو ایڈجسٹ کیا گیا مگر وہ بھی خاموش ہیں۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں میں موجود ایسے علماء ومشائخ جو محرم ، رمضان المبارک کے علاوہ دیگر مواقع پر حکومت کے دست و بازو ہوتے ہیں کو متحرک کیا جائے تاکہ پنجاب میں مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں موثر حکمت عملی کے مطابق کام ہو سکے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حکومتی ذمہ داروں کومولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں اپنی صف بندی بہتر کرنے اور وزارت مذہبی امور پنجاب کو متحرک کرنے کی تجویز بھی دی۔ خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان لاکھوں کا قافلہ لے کر آزادی مارچ کی صورت میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے۔