”میں ایک بار مر چکا ہوں، عمر قید ختم کی جائے“ قیدی کے انوکھے مقدمے کا فیصلہ ہوگیا

Ameen Akbar امین اکبر منگل 12 نومبر 2019 23:53

”میں ایک بار مر چکا ہوں، عمر قید ختم کی جائے“ قیدی کے انوکھے مقدمے ..

66 سالہ بینجمن شریبر زندہ ہیں اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک بار مر چکے ہیں، اس لیے ان کی عمر قید کی سزا ختم کی جائے۔

2015ء میں بینجمن اپنی جیل کی کوٹھری میں گر گئے تھے۔ اُن کے دل کی دھڑکن رک  گئی  تھی۔ ڈاکٹروں کو پانچ بار اُن کی دل کی دھڑکن بحال کرنی پڑی۔ یعنی تیکنیکی طور پر وہ ایک مخصوص مدت کے لیے  مر چکے تھے لیکن انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا۔

بعد میں بینجمن نے اپیل کی کہ  انہیں غیر قانونی طور پر جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ اُن کا موقف تھا کہ چونکہ 2015 میں ان کی عارضی موت ہو چکی ہے، اس لیے اُن کی عمر قید کی سزا ختم ہو چکی ہے، اس لیے اب وہ ایک آزاد انسان ہیں۔

بینجمن نے ڈسٹرکٹ کورٹ میں رہائی کی اپیل کی لیکن جج نے اُن کی اپیل خارج کر دی۔

(جاری ہے)

جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ  یہ قانون میں تخلیقی سقم تلاش کرنے کی کوشش ہے۔

جج کا کہنا تھا کہ قیدی کا مقدمہ کرنا ثابت  کرتا ہے کہ  اُن کا درجہ  زندہ انسان کا ہے۔

تاہم بینجمن نے ہمت نہیں ہاری ،  وہ اپنے مقدمے کو آئیووا کی کورٹ آف اپیلز میں لے گئے۔اُن کا خیال تھا کہ یہاں  پر جج اُن کے موقف کو سمجھ سکیں گے۔بدقسمتی سے یہاں بھی ججوں کا خیال تھا    کہ جیل میں زندگی گزارنے کا مطلب زندہ ہونا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ قانون سازوں کا  اس شق سے یہ مطلب نہیں تھا کہ  علاج کے دوران  دوبارہ زندہ کیے جانے کو  مجرم اپنے دفاع میں استعمال کر سکیں۔

جج امانڈا پوٹرفیلڈ نے لکھا کہ بینجمن  یا تو زندہ ہے، اس صورت میں انہیں جیل میں ہونا چاہیے، یا انہیں مردہ ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں یہ اپیل  ناقابل توجہ ہے۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ بینجمن اس مقدمے کو اعلیٰ عدالت میں لے  جانے کا ارادہ رکھتے  ہیں یا نہیں۔

متعلقہ عنوان :