شہریت سے متعلق مسلم مخالف بل بھارت کی توسیع پسندی اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹر ڈیزائن کا حصہ ہے . عمران خان
مودی سرکار نے آدھی رات کے بعد ا جلاس بلاکر بل منظور کیا جس کے حق میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے
میاں محمد ندیم منگل 10 دسمبر 2019 13:18
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے ہندو راشٹر ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جس کو فاشسٹ مودی سرکار نے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا‘واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان زیریں میں شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) متعارف کرایا تھا حزب اختلاف کی جماعتوں نے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کیا جس کے تحت پہلی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر بھارتی شہریت دینے کے لیے ایک قانونی راستہ اختیار کیا جارہا ہے.
مذکورہ بل مودی سرکار نے پہلی مرتبہ 2016 میں پیش کیا تھا لیکن احتجاج اور اتحادیوں کی جانب سے دستبرداری کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا‘بل میں 2015 سے پہلے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیر مسلموں کو بھارت شہریت دینے کی تجویز ہے. بھارت میں پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف اور متعدد بھارتی شہروں میں مظاہرین نے کہا کہ مذکورہ بل دراصل مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور بھارت کے سیکولرآئین کی خلاف ورزی کی‘حزب اختلاف کے رکن ششی تھرور نے کہا کہ غیر شہریوں سمیت تمام افراد کی ضمانت قانون سے پہلے مساوات کے اصول کی خلاف ورزی ہے. واضح رہے کہ امیت شاہ اور نریندر مودی کی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے گزشتہ عام انتخابات مذکورہ بل کو اپنے منشور کا حصے بنایا تھا اور زور دیا تھا کہ یہ ضروری ہے امیت شاہ نے الزام لگایا پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ہندو، بدھسٹ، سکھ، جین، پارسی اور عیسائی مذاہب کے پیروکارعذاب برداشت کررہے ہیں آدھی رات کے بعد ایوان زیریں میں بل منظور ہو جس کے حق میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے‘خیال رہے کہ اس بل کو ایوان بالا (سینیٹ) سے منظور ہونا ہے جہاں حکمران جماعت کی اکثریت نہیں ہے. کسی بھی بل کو قانون سازی لیے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق ضروری ہوتی ہے اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بل لوک سبھا سے منظور ہونے پر ٹوئٹ میں کہا شہریت سے متعلق بل بھارت کی صدیوں پرانی خواہش کا امتزاج ہے جو انسانیت پسندی کا جزو ہے لیکن مسلم تنظیموں، انسانی حقوق گروپوں اور دیگر لوگوں کے نزدیک مذکورہ بل نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے 20 کروڑمسلمان کو پسماندہ کرنے کا حصہ ہے‘نریندرمودی کی حکومت کے تحت بیشتر اسلامی ناموں سے منسوب شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کردیے گئے جبکہ بیشتر اسکولوں کی نصابی کتب سے بھارت میں مسلمانوں کے کردار کو بھی کم کردیا گیا. پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی جاری ایک بیان میں پاکستان نے بھارتی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیازی سلوک یونیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس اور دیگر عالمی تنظیموں کے ضابطہ قوانین کے خلاف ورزی ہے دفتر خارجہ کے مطابق لوک سبھا کی قانون سازی بھی پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ معاہدوں خاص طور پر مابین اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق سے متعلق معاہدے کی خلاف وزری ہے. بیان میں مزید کہا گیا کہ تازہ ترین قانون سازی ہندو راشٹر کی طرف ایک اور اہم قدم ہے جس کے لیے انتہا پسند ہندو رہنما کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے تھے‘دفتر خارجہ کے مطابق یہ مذہب کی بنیاد پر پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بھی واضح مظہر ہے جسے ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کو تعینات کرکے 80 لاکھ غیر مسلح اور بے گناہ مقبوضہ کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہے، فوجیوں کی موجودگی انتہا پسندانہ ذہنیت کو مزید واضح کرتا ہے .شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے. بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوﺅں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی. اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی‘خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں.مزید اہم خبریں
-
بھارتی انتخابات: کشمیر میں امیدوار کھڑا نہ کرنے کی حکمت عملی
-
گورنر سندھ کے معاملے پر ہم نے مسلم لیگ ن سے کوئی گارنٹی نہیں مانگی، خالد مقبول
-
عازمین حج پاکستان کے سفیر بن کر جائیں اور وہاں ڈسپلن کا خیال رکھیں ، چیئرمین سینیٹ
-
فرانس ، پاکستانی سفیرعاصم افتخار احمد کا سینڈیلن میں پاکستان کے ایونٹنگ پیرس اولمپکس تربیتی کیمپ کا دورہ،کوچ پیئرڈیفرنس سے ملاقات
-
رفح سے فلسطینی شہریوں کا انخلا
-
کوپ 29 کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے مالیاتی ضروریات پورا کرنے میں مدد ملے گی، صدر مملکت آصف علی زرداری
-
وزیرِ اعظم نے سرمایہ کاری بورڈ کو ملک میں سرمایہ کاری اور نئے کاروبار کے آغاز کیلئے مزید آسانیاں پیدا کرنے کا ہدف دے دیا ، ون ونڈو آپریشن کی طرز پر طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت
-
فرانس میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخاراحمد کا سینڈیلن میں پاکستان کے ایونٹنگ پیرس اولمپکس 2024 کے تربیتی کیمپ کا دورہ
-
روبینہ خالد نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں
-
پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیوب قمر نے چاند کے تین چکر کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد مدار سے ابتدائی تصاویر بھیج دیں
-
بلاول بھٹو زرداری سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن سینیٹرروبینہ خالد کی ملاقات
-
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اورماحول دوست سرمایہ کاری کے فروغ میں پرعزم ہے،دسمبر تک ملکی سطح پر گرین سکوک بانڈز جاری کرنے پر کام کررہے ہیں،وزیرخزانہ محمداورنگزیب
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.