Live Updates

شہریت سے متعلق مسلم مخالف بل بھارت کی توسیع پسندی اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹر ڈیزائن کا حصہ ہے . عمران خان

مودی سرکار نے آدھی رات کے بعد ا جلاس بلاکر بل منظور کیا جس کے حق میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 10 دسمبر 2019 13:18

شہریت سے متعلق مسلم مخالف بل بھارت کی توسیع پسندی اور آر ایس ایس کے ..
اسلام آباد/نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 دسمبر ۔2019ء) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں مسلم مخالف متنازع بل پیش کرنے اور اسے منظور کیے جانے پر ہزاروں لوگ سراپا احتجاج ہیں جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی غیر مسلم اقلیت بھارت میں شہریت حاصل کرسکے گی.

پاکستان نے مذکورہ امتیازی قانون سازی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون انتہا پسند ہندوتو کے زہریلے نظریے کی عکاسی ہے‘وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ میں کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازع شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں جس میں انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے ہندو راشٹر ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جس کو فاشسٹ مودی سرکار نے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا‘واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان زیریں میں شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) متعارف کرایا تھا حزب اختلاف کی جماعتوں نے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کیا جس کے تحت پہلی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر بھارتی شہریت دینے کے لیے ایک قانونی راستہ اختیار کیا جارہا ہے.

مذکورہ بل مودی سرکار نے پہلی مرتبہ 2016 میں پیش کیا تھا لیکن احتجاج اور اتحادیوں کی جانب سے دستبرداری کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا‘بل میں 2015 سے پہلے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیر مسلموں کو بھارت شہریت دینے کی تجویز ہے. بھارت میں پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف اور متعدد بھارتی شہروں میں مظاہرین نے کہا کہ مذکورہ بل دراصل مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور بھارت کے سیکولرآئین کی خلاف ورزی کی‘حزب اختلاف کے رکن ششی تھرور نے کہا کہ غیر شہریوں سمیت تمام افراد کی ضمانت قانون سے پہلے مساوات کے اصول کی خلاف ورزی ہے.

واضح رہے کہ امیت شاہ اور نریندر مودی کی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے گزشتہ عام انتخابات مذکورہ بل کو اپنے منشور کا حصے بنایا تھا اور زور دیا تھا کہ یہ ضروری ہے امیت شاہ نے الزام لگایا پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ہندو، بدھسٹ، سکھ، جین، پارسی اور عیسائی مذاہب کے پیروکارعذاب برداشت کررہے ہیں آدھی رات کے بعد ایوان زیریں میں بل منظور ہو جس کے حق میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے‘خیال رہے کہ اس بل کو ایوان بالا (سینیٹ) سے منظور ہونا ہے جہاں حکمران جماعت کی اکثریت نہیں ہے.

کسی بھی بل کو قانون سازی لیے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق ضروری ہوتی ہے اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بل لوک سبھا سے منظور ہونے پر ٹوئٹ میں کہا شہریت سے متعلق بل بھارت کی صدیوں پرانی خواہش کا امتزاج ہے جو انسانیت پسندی کا جزو ہے لیکن مسلم تنظیموں، انسانی حقوق گروپوں اور دیگر لوگوں کے نزدیک مذکورہ بل نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے 20 کروڑمسلمان کو پسماندہ کرنے کا حصہ ہے‘نریندرمودی کی حکومت کے تحت بیشتر اسلامی ناموں سے منسوب شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کردیے گئے جبکہ بیشتر اسکولوں کی نصابی کتب سے بھارت میں مسلمانوں کے کردار کو بھی کم کردیا گیا.

پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی جاری ایک بیان میں پاکستان نے بھارتی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیازی سلوک یونیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس اور دیگر عالمی تنظیموں کے ضابطہ قوانین کے خلاف ورزی ہے دفتر خارجہ کے مطابق لوک سبھا کی قانون سازی بھی پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ معاہدوں خاص طور پر مابین اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق سے متعلق معاہدے کی خلاف وزری ہے.

بیان میں مزید کہا گیا کہ تازہ ترین قانون سازی ہندو راشٹر کی طرف ایک اور اہم قدم ہے جس کے لیے انتہا پسند ہندو رہنما کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے تھے‘دفتر خارجہ کے مطابق یہ مذہب کی بنیاد پر پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بھی واضح مظہر ہے جسے ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کو تعینات کرکے 80 لاکھ غیر مسلح اور بے گناہ مقبوضہ کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہے، فوجیوں کی موجودگی انتہا پسندانہ ذہنیت کو مزید واضح کرتا ہے .شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوﺅں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی. اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی‘خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات