مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری جاری

مودی حکومت میں نازی حکومت کی تمام خصوصیات موجود ہیں، ڈاکٹرگریگوری

ہفتہ 14 دسمبر 2019 17:28

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری جاری
واشنگٹن ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2019ء) نسل کشی کے بارے میں دنیا کے سب سے مشہور ماہر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور آسام (بھارت) میں مسلمانوں کی نسل کی تیاریاں جاری ہیں اور وہ نسل کشی سے صرف ایک قدم دور ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق’’ جینوا سائیڈ واچ ‘‘کے صدر ڈاکٹر گریگوری سٹین ٹن نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت میں یقیناً نسل کشی کی تیاری جاری ہے اور آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم نسل کشی سے قبل کا مرحلہ ہے اور اگلا مرحلہ ان کی قتل و غارت گری ہے جسے ہم نسل کشی کہتے ہیں۔

"کشمیر اور این آر سی سے متعلق گراؤنڈ رپورٹس" کے حوالے سے کانگریس کی بریفنگ کا اہتمام امریکہ میں مقیم سول سوسائٹی کی تین تنظیموں ’’ انڈین امریکن مسلم کونسل، آئی اے ایم سی، ایچ ایف ایچ آرنے کیا تھا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر گریگوری نے کہا کہ کشمیر اور آسام دونوں میں جاری نسل کشی ایک اہم معاملہ ہے جس پر نسل کشی کے’’ دس مراحل" کی طرز پر عمل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں نازی حکومت کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوم پرستی کی انتہا ہی فاش ازم اور نازی ازم ہے ۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی اسکالر ڈاکٹر انگانہ چیٹرجی نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ میں حصہ لیتے ہوئے نریندر مودی حکومت کی طرف سے سے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں نافذ کئے جانے والے فوجی محاصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت کشمیریوں کی گرفتاریوں، انہیں بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کرنے ، اظہار رائے اور نقل وحرکت کے حقوق چھیننے اور مقدس مقامات کو بندکرنے کی اطلاعات ہیں ۔انہوں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو انکے بیان کہ انسانی حقوق کے مغربی معیارات کا بھارت پر اندھا دھند اطلاق نہیں کیا جاسکتا پر سخت تنقید نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 120 سے زائد دنوں سے جاری محاصرے کے دوران حراست تشدد اور صحت ، تعلیم اور دیگر شہری و سیاسی حقوق سلب کیے جانے کی اطلاع ہے۔

ڈاکٹر چٹرجی نے کہا کہ کشمیریوں کو اپنی تکلیف ، غصے ، خوف اورلاچارگی کے اظہار کا موقع فراہم کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی رقیب حمید نائیک نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں جاری لاک ڈاؤن گزشتہ دہائی کے دوران کئے جانے والے محاصروں میں ایک بدترین محاصرہ ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ بھارتی فوجیوں نے 5 اگست سے کسی کشمیری کو ہلاک نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ انکے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق پانچ اگست سے اب تک بھارتی فوجیوں نے پانچ کشمیریوں کو قتل کیا ہے تاہم یہ تعداد زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ مواصلات کی بندش، ناکہ بندی اور پریس کی آزادی پر پابندی کے باعث ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ وادی کے مختلف حصوں سے درست اعداد و شمار حاصل کر سکیں۔نائیک نے کہا کہا کہ انہوں نے بہت سارے کم عمر لڑکوں سے ملاقات کی ہے جنہیں بغیر کسی جرم کے بلا وجہ قید کیا گیا تھاجن میں سے ایک سری نگر کے مزمل فیروز ہے جسے بھارتی پولیس نے آدھی رات کے وقت گھر پر چھاپہ مار کرگرفتار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کی عدالتیں فعال نہیں ہیں جبکہ بار ایسوسی ایشن کے صدربھی نظر بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مواصلات کی ناکہ بندی ہر شعبے کو متاثر کررہی ہے اور شعبہ صحت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، سیاحت ، بینکاری اور تعلیم کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ای کامرس (آن لائن خریدادی) سے وابستہ دس ہزار نوجوان اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیںجبکہ ہزاروں طالب علم انجینئرنگ اور میڈیکل کے داخلہ امتحانات کے لئے فارم جمع نہیں کرا سکے۔

انسانی حقوق کی کارکن ٹیسٹا سٹالوڈ نے بھی ویڈیوکانفرسنگ کے ذریعے بریفنگ میںحصہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ آسام میں شہریوں کے لئے قومی اندراج (این آر سی) ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث ہے ۔انہوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے پاس کئے جانے والے حالیہ شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔