جماعت اسلامی حکومت کی مہنگائی ، عوام دشمن اور ناکام حکومتی پالیسیوں کے خلاف 24جنوری کو ملک سمیت پنجاب بھر میں احتجاجی مظاہرے کرے گی

لاہور پریس کلب میں امیر جماعت اسلا می پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری ، امیر جماعت اسلامی لاہو رڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد ، ضیاء الدین انصاری، شاہد نوید ملک اور محمد فاروق چوہان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 22 جنوری 2020 23:36

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 جنوری2020ء) حکومت کی مہنگائی ، عوام دشمن اورناکام معاشی پالیسیوں کے خلاف جماعت اسلامی نے 24جنوری بروز جمعة المبارک پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب بھر میں بھی 24جنوری کو بھر پور احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے گزشتہ 18ماہ کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

حکومت کی غریب دشمن پالیسوں سے غریب عوام بری طرح پس چکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے امیر جماعت اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد ، ضیاء الدین انصاری ، شاہد نوید ملک اور محمد فاروق چوہان کے ہمراہ پریس کلب لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سرکاری و پرائیویٹ تنخواہیں وہیں لیکن مسائل کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

آٹا نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ سبزیوں، دالوں اور مرغی کے گوشت کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کے چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ ایک طرف ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپے کی قدر میں 30فیصد سے زائد کمی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف مہنگائی میں بھی 40فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ بازار میں دالوں، سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔

اشیاء خوردونوش اور ضروریات زندگی کی بات کی جائے تو رواں مالی سال کے دوران ٹماٹر 124فیصد، چینی 30فیصد اور دالیں 35فیصد تک مہنگی ہوئی ہیں۔ گھروں میں استعمال ہونے والی گیس کی نرخوں میں 85فیصد سی این جی 27فیصد، مٹی کا ٹیل 24فیصد اور موٹر فیول 22فیصد تک مہنگا ہوچکا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کی بات کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ قرضوں میں اضافے کی بات کی جائے تو حکومت کو پہلے ایک سال کے دوران پاکستان کا غیر ملکی قرضہ88ارب 19کروڑ 90لاکھ امریکی ڈالر تھا جبکہ ڈیڑھ سالوں میں 11سو ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ میں ان کا اپنا گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ اگر وزیر اعظم لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرنے کے باوجود اپنا گھر کا ماہانہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تو وہ غریب مزدور جس کی تنخواہ تبدیلی کے دور حکومت میں صرف 12ہزار روپے ہے وہ کیسے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہوگا بدقسمتی تو یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام کو ریلیف فراہم کرنا شامل نہیں۔

اسلام آباد اور دیگر شہروں کو خوبصورت بنانے پر اربوں روپے تو مختص کردیے جاتے ہیں مگر دوسری طرف 10ہزار بھٹہ مزدوروں کے بچوں کا وظیفہ بند کردیا جاتا ہے۔ فنڈز کی بندش سے سپیشل ایجوکیشن کے ادارے متاثر ہوئے ہیں۔ لاہور اور دیگر شہروں میں خصوصی بچوں کے اکثر اداروں میں فری پک اینڈ ڈراپ دینے والی بسیں فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند ہوگئیں ہیں۔

حکمرانوں نے عوام کو شدید مایوس کیا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے مزید کہا کہ ملکی حالات سے دلبرداشتہ اور بہتر روزگار کی تلاش میں گزشتہ د و برسوں میں 8لاکھ 84ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں ً عوام سوال پوچھتے ہیں کہ کہاں ہیں پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد چینی بھی مہنگی کردی گئی جس سے عوام کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔گندم بیرون ملک29روپے کلو کے حساب سے ایکسپورٹ کی گئی جبکہ پاکستان میں عوام کو70روپے کلو فروخت کی جا رہی ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان بنیادی اشیائے خوراک میں خود کفیل ہے۔ گندم کی پیداوار میں عالمی رینکنگ کے حوالے سے پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔

گنے کی پیداوار میں پانچواں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھا نمبر ہے۔ اس کے باوجود عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف 63 فیصد خاندانوں کو خوراک کی فراہمی یقینی ہے یعنی انھیں فوڈ سیکورٹی حاصل ہے۔ صرف 16.9 فیصد خاندانوں کو خوراک کی فراہمی کے اعتبارسے غیر محفوظ یا ان سکیور قرار دیا گیا ہے جبکہ اٹھارہ فیصد کے قریب لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے۔

ریاست مدینہ کے حاکم نے اعلان کیا تھا کہ کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی ذمے داری ان پر ہو گی۔عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روپے کی قیمت میں گراوٹ اور انرجی ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح 2019 میں 6.8 فیصد تھی جو کے نئے مالی سال میں 11 اعشاریہ 3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے معیشت کا پہیہ جام ہونے سے صنعتوں میں نوبت تالہ بندی تک آگئی ہے جسکی وجہ سے روزانہ اجرت ملازمین کی بے روزگاری کا سونامی آیا ہوا ہے عوام کے پیٹ کاٹنے والے بے رحم حکمرانوں نے لوگوں کا جینا دوبھرکر دیا ہے۔

حکمران قبر میں سکون ملنے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس300 بھی سے بڑھا کر ساڑھے تیرہ سوروپے کردی گئی ہے ۔پاکستان میں 72 سال گزر جانے کے باوجود سودی نظام کا جاری رہنا اللہ اور قرآن کے ساتھ جنگ ہے۔ سود لینے دینے اور اس حوالے سے کوئی گواہی دینے یا دستاویز بنانے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشی معاملات کو اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایات دیں تھیں۔

آئین میں پندرہ سال کے اندر تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق استوار کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا کہ شرعی عدالت نے نومبر 1991ء میں معیشت کو شرعی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے 30 جون 1992 تک مہلت دی تھی مگر بدقسمتی سے آج تک ملک میں سے سودی نظام کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ہر بجٹ میں کئی ٹریلین روپے قرضوں پر لگنے والے سود کی ادائیگی کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ اوریہ رقم عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت قرضوں پر ملک چلانے کی ناکام کوشش کر ر ہی ہے۔ اس سے غریب عوام کی حالت زار کبھی بدل نہیں سکتی۔ سودی معیشت سے نجات کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔