برطانوی عدالت نے ملک میں اسلامی شادیوں کوغیر مستند قرار دیدیا
مسلم جوڑے کا اسلامی طو رپر ہونیوالا نکاح ملکی قانون کے دائرہ کار میں آتا ہے‘ہائیکورٹ اپیل کورٹ نے سرے سے نکاح کی اس تقریب کو ہی غیر مستند اور غیر قانونی قرار دے دیا
پیر 17 فروری 2020 10:40
(جاری ہے)
یہ مقدمہ نسرین اختر اور محمد شہباز خان کی طلاق سے متعلق تھا جن کے اس شادی سے چار بچے بھی ہیں۔
اس مسلم جوڑے نے 1998 میں نکاح ایک ریستوران میں ایک تقریب میں کیا جس میں ایک امام اور پچاس مہمان بھی شریک تھے۔ تاہم نسرین اختر کے اصرار کے باوجود اس کے بعد مزید کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔اس جوڑے کی 2016 میں علیحدگی ہو گئی جس کے بعد شہباز خان نے اپنی اہلیہ کی طلاق سے متعلق درخواست کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی انھوں نے قانونی طور پر شادی نہیں کی تھی۔نسرین اختر نے کہا کہ ان کی اسلامی شادی اور طلاق کی درخواست مستند تھی اور انھیں وہی قانونی تحفظ ملنا چاہیے تھا جو برطانیہ میں دوسرے قانونی شادی شدہ جوڑوں کو ملتا ہے۔طلاق کے حوالے سے ان کی درخواست کا جائزہ ایک ہائی کورٹ کی فیملی ڈویڑن کے ایک مقدمے میں لیا گیا اور جسٹس ولیمز نے 2018 کے موسمِ گرما میں اس حوالے سے فیصلہ دیا۔انھوں نے فیصلے میں لکھا کہ کیونکہ یہ جوڑا اپنے آپ کو میاں بیوی کہلواتا ہے اس لیے مسز اختر کی بات درست ہے اور ان کے رشتے کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ ان کے نکاح نامے میں وہی توقعات ہوتی ہیں جو برطانیہ میں شادی کے معاہدے میں ہوتی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ شادی 1973 کے میٹریمونیئل کازز ایکٹ کے دائرے میں آتا ہے باوجود اس کے کہ مسٹر خان کا مؤقف ہے کہ یہ شادی ’صرف شریعت کے قانون‘ کے تحت عمل میں آئی۔جسٹس ولیمز کا کہنا تھا کہ مسز اختر کے پاس اس شادی کو ختم کرنے کا حق حاصل ہے۔تاہم کورٹ آف اپیل نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شادی برطانیہ میں شادی کے قوانین کے مطابق غیر مستند ہے۔اس فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ شادی ’غیر مستند‘ ہے کیونکہ یہ ایسی عمارت میں نہیں ہوئی جو شادیوں کے لیے مخصوص اور رجسٹرڈ شدہ ہو، کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں دیے گئے اور کوئی رجسٹرار بھی اس موقع پر موجود نہیں تھا۔اپیل کورٹ کے جج کے مطابق دونوں فریق برطانوی قانون کے مطابق شادی نہیں کر رہے تھے۔مسز اختر اور مسٹر خان دونوں نے اپیل کی سماعت کے دوران حصہ نہیں لیا۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ساؤتھ ہال بلیک سسٹرز کی ڈائریکٹر پرگنا پٹیل نے کہا کہ آج کا فیصلہ مسلمان اور دیگر خواتین کو شریعت کورٹس کی جانب جانے پر مجبور کرے گا جو پہلے ہی خواتین اور بچوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ انھیں قانونی نظام سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ 2017 میں شریعت کے قانون پر حکومتی جائزے میں یہ کہا گیا تھا کہ مسلمان جوڑوں کو مسلمان رسموں کے علاوہ اپنی شادیوں کو رجسٹر بھی کروانا ہو گا اسی صورت میں اسلامی شادی مسیحی اور یہودی شادیوں کی طرح قانونی طور پر جائز ہو سکے گی۔مزید اہم خبریں
-
وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کا امکان
-
بحیرہ احمر میں جبوتی کے ساحل کے قریب 77 افراد کو لے جانے والی کشتی الٹ گئی 23 افراد ہلاک جبکہ21 لاپتہ ہیں.اقوام متحدہ
-
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کا تذکرہ سامنے نہیں آسکا
-
نواز شریف نے قمر باجوہ کو مدت ملازمت میں دوسری توسیع کی یقین دہانی کرائی تھی
-
حکومت کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅں میں کتنی حقیقت ہے؟ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکرنہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آچکی ہے.معاشی ماہرین
-
صدر زرداری سے ائیر ایشیا ایوی ایشن گروپ کی ملاقات
-
عدالت نے علیمہ خان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرلی
-
سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
-
ایرانی صدر کا دورہ کراچی، (کل) صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
-
کم سے کم اجرت 32000 ہے ، عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی جائیگی ، وزیرخزانہ
-
مجھے مسلم لیگ ن سے کیوں نکالا گیا؟ اس کی وجہ شہباز شریف پسند نہیں کرتے تھے
-
اٹک ریفائنری بند ہونے کے دہانے پر
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.