امریکا اور افغان طالبان کے درمیان فروری کے آخرمیں امن معاہدے پر دستخط متوقع

ٹرمپ انتظامیہ انتخابی وعدے کی تکمیل کے لیے18سالہ جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے جبکہ امریکی اسٹبلشمنٹ خوف کا شکار ہے .رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 18 فروری 2020 10:25

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان فروری کے آخرمیں امن معاہدے پر دستخط ..
واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 فروری۔2020ء) امریکا اور افغان طالبان کے درمیان فروری کے آخرمیں امن معاہدے پر دستخط متوقع ہیں جوکہ طالبان کے دوحہ قطرمیں قائم سیاسی دفتر میں” ضامنوں “کی موجودگی میں ہوں گے جس کے بعد افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا. امریکی نشریاتی ادارے نے طالبان کے ایک سنیئرراہنما کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں فریقوں نے باہمی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ قطر کے صدر مقام دوحہ میں معاہدے پر دستخطوں کی ایک تقریب کا اہتمام کریں گے یہ وہ شہر ہے جس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان 18 ماہ تک مذاکرات کی میزبانی کی ہے .

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد امریکہ اور افغانستان 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کر دیں گے جبکہ اس کے جواب میں طالبان اپنی حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدیوں چھوڑ دیں گے.ایک طرف واشنگٹن کے نمائندے زلمے خلیل زاد امن معاہدے کوحتمی شکل دینے کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف انتخابی مہم میں جوازکے لیے اس بات کو بھی دہرا رہا ہے کہ واشنگٹن صرف اس صورت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر آگے بڑھے گا جب طالبان افغانسان میں تشدد میں سات روز کی کمی سے متعلق ہاہمی طور پر طے شدہ سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کریں گے جبکہ طالبان بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ افغان سرزمین پر آخری غیرملکی فوجی کی موجودگی تک وہ ہتھیار نہیں چھوڑیں گے .

افغان امور کے ماہر اور کالم نگار میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی طالبان نے امن معاہدے کے لیے مذکرات سے قبل جنگ بندی معاہدے کی بات کی تھی مگرسیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اورصدرٹرمپ کے کچھ دیگر قریبی ساتھیوں نے جنگ بندی معاہدے کی پیشکش کو مسترد کروادیا تھا جس کے بعد ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کیمپ ڈیوڈمیں امن معاہدے سے عین 24گھنٹے پہلے پورے عمل کو سبوتاژکروادیا تھا ابھی تک معاہدے کی جزیات سامنے نہیں آسکیں کہ کیا افغانستان کے لیے یہ ایک جامع امن معاہدہ ہو گا اور پورے ملک پر اس کا اطلاق ہوگا؟یا یہ صرف ایک ایسا معاہدہ ہو گا جو امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کا موقع فراہم کرے گا؟یادونوں آپشنز ہو سکتی ہیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی اس معاہدے کا استعمال وہاں سے نکلنے کے لیے کریں بجائے اس کے کہ افغانستان کو ایک کامل امن ڈیل ملے بہرحال ابھی تک طے شدہ معاملات کی تفصیلات محدود ہیں اس لیے کوئی حتمی رائے دینا قبل ازوقت ہوگا .

انہوں نے کہا کہ طالبان کے مقابلے میں امریکا کا بہت کچھ داﺅ پر لگا ہوا ہے جس میں سب سے بڑا دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کا سٹیٹس ہے جو ایک مفلوک حال ملک سے ایک طویل جنگ میں واشنگٹن کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آرہا ہے صدر ٹرمپ صرف رواں سال ہونے والے امریکی انتخابات کو دیکھ رہے ہیں مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل وقت ہے کہ وہ ا س حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ ”امریکی امپیریل ازم“کا عہد ختم ہونے جارہا ہے ویت نام میں شرمناک شکست کے بعد کیمونزم کا ”چورن“بیچ کر امریکن بالادستی کو بچالیا گیا تھا اگرچہ عام امریکیوں کو افراط زر اورمعاشی تباہ کاریوں کی صورت میں ایک بھاری قیمت چکانا پڑی تھی مگر آج سوشل میڈیا کے عہد میں حقائق کو زیادہ دیر تک چھپانا ممکن نہیں رہا .میاں ندیم کا کہنا تھا کہ امریکی تجزیہ کاروں کو ڈر ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر فوجیں افغانستان سے نکالنے میں جلد بازی کر رہے ہیںکچھ امریکیوں کو افسوس ہو گا کہ سب سے لمبے دورانیے تک چلنے والی جنگی مہم کے ختم ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان کے مادی مفادات اس جنگ سے جڑے ہیں لیکن یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ ہم آنے والے وقت کو لے کر زیادہ پرامید نہیں ہو سکتے امریکی دفاعی ماہر ٹونی کورڈیس مین نے تشویش ظاہرکرچکے ہیں کہ صدر ٹرمپ جس امن کی تلاش کر رہے ہیں وہ شاہد امریکی انخلا کی ”ویتنامائزیشن“ ہے یعنی کہ 1950 کی دہائی میں ویتنام جنگ کو ختم کرنے میں امریکہ کو پیش آنے والی مشکلا ت ان کا کہنا تھا کہ بہت سی علامتیں ایسی ہیں جن سے واضع ہوتا ہے کہ یہ امن کی کوشش بھی امریکی انخلا کو ویسا ہی سیاسی رنگ دے گی جیسے امریکہ نے امن معاہدے کے نام پر ویتنام کے ساتھ معاملات نمٹائے تھے .

امریکہ کی سب سے لمبے عرصے تک چلنے والی جنگ شاید ختم ہو جائے اور دوبارہ اہم صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا اپنا وعدہ وفا کر سکیں لیکن امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بہت کچھ داﺅ پر ہے .جرمنی کے شہر میونخ میں سالانہ سکیورٹی کانفرنس دوران یہ بات سامنے آگئی تھی کہ امریکہ اور طالبان ایک امن معاہدے پر متفق ہوچکے ہیں میونخ کانفرنس کے دوران امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو اور افغان صدر اشرف غنی نے غیررسمی طور پر ملاقات کی تھی.

اس کے بعد زلمے خلیل زاد دوبارہ متحرک ہوئے اور معاہدے کا کچھ حصہ طے کیا کہا جارہا ہے امریکہ اور طالبان کے مابین ایک سات روزہ جنگ بندی کا معاہدہ جلد ہی عمل میں آئے گا اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا باعث بنے گا. ابتدائی معاہدے کے 10 دن کے اندر تمام افغان امن مذاکرات ہوں گے جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا. امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے کہاتھا کہ افغانستان میں ہماری کارروائیوں کا اہم حصہ معطل کر دیا جائے گا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ” ابھی وہ وقت نہیں آیا “ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے مزید مشاورت کی ضرورت ہے یہ ایک بہت اہم اقدام ہے.

امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک مواصلاتی نظام ہو گا جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ کسی اور ذرائع کی طرف سے بھی تشدد ہو سکتا ہے اور ہر پرتشدد واقع کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہو گی. طویل مدت میں طالبان اپنے زیرِکنٹرول علاقوں میں بین الاقوامی جہادیوں کی میزبانی، تربیت یا ان کے لیے فنڈز اکٹھا نہ کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات مستقل اور جامع جنگ بندی کے موضوع سے شروع ہوں گے.