میر شکیل الرحمن کو جنرل پاور آف اٹارنی کے تحت 180 کنال 18 مرلے زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے حوالے سے تفصیلات

جمعرات 12 مارچ 2020 23:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 مارچ2020ء) میر شکیل الرحمن کو جنرل پاور آف اٹارنی کے تحت 180 کنال 18 مرلے زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے حوالے سے تفصیلات کے مطابق 4 جون 1986ء کو ہدایت علی اور دیگر نے زمین پر وسط مدتی ترقیاتی کاموں کی ایک درخواست دائر کی اور کہا کہ جنرل پاور آف اٹارنی کے تحت مندرجہ بالا زمین کے قابض میر شکیل الرحمن ہیں۔

جمعرات کو یہاں جاری تفصیلات کے مطابق 7 جون 1986ء کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی ای) کے ڈی ایل ڈی میاں بشیر احمد نے وزیر اعلیٰ کو پیش کرنے کے لئے سمری کی تیاری کا کام شروع کیا جس کے ابتدائی مسودے میں انہوں نے لکھا کہ جوہر ٹائون سکیم فیز II کی ڈویلپمنٹ کے لئے ایل ڈی اے زمین پہلے ہی ایکوائر کر چکا ہے۔ 3 جولائی 1986ء کو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل ہمایوں فیض رسول نے وزیر اعلیٰ کو سمری پیش کی جس کی منظوری 11 جولائی 1986ء کو دی گئی۔

(جاری ہے)

سمری کی تفصیلات کے مطابق ایل ڈی اے یہ زمین پہلے ہی ایکوائر کر چکا ہے تاہم اس کی وسط مدتی ڈویلپمنٹ کی اجازت نہیں دی گئی لہذا درخواست کنندگان کو ہائوسنگ ایکٹ 1973ء اور جوہر ٹائون کی نافذ العمل استثنیٰ پالیسی کے تحت ان کی زمین کے 30 فیصد کے مساوی ڈویلپ پلاٹس کی فراہمی میں استثنیٰ کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔ سمری کے مطابق مندرجہ فارمولا کے تحت درخواست گزاروں کو 55 کنال 5 مرلے زمین دی جا سکتی ہے جبکہ مجموعی زمین 3 مختلف مقامات پر واقع ہے جن میں سے 33 کنال زمین کا ایک حصہ کینال بینک، 124 کنال زمین نہر سے ہٹ کر اور 23 کنال کا تیسرا پلاٹ کنال بینک سے بھی ہٹ کر ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ درخواست گزاران مجھ سے ملے ہیں اور انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو کینال بینک پر واقع زمین میں 30 فیصد کا استثنیٰ دیا جائے کیونکہ ہماری ملکیت اس سے بہتر لوکیشن پر واقع ہے جو مجوزہ سوک سنٹر کے قریب ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے تجویز پیش کی کہ درخواست گزاران کو کسی ایک بلاک میں ایک کنال کے 54 پلاٹوں پر استثنیٰ دیا جا سکتا ہے جن میں 9 پلاٹ کینال بینک پر واقع ہیں جن کا فرنٹ 360 فٹ ہے۔

سمری میں لکھا گیا کہ اس تجویز کو ایک مخصوص کیس کے طور پر لیا جائے اور اس کو بطور مثال پیش نہ کیا جائے۔ 30 جولائی 1986ء کو ایل ڈی اے کے ڈی ایل ڈی نے تجویز کیا کہ پلاٹ نمبر 8 تا 16، 17 تا 25، 74 تا 91 اور 103 تا 120 ہر پلاٹ 420 مربع میٹر (ایک کنال)، ایم اے جوہر ٹائون کے ایچ بلاک میں ہیں۔ یہ مستثنیٰ زمین کے عوض الاٹ کئے جا سکتے ہیں۔ 2 اکتوبر 1986ء مندرجہ بالا پلاٹس مسمات شاہینہ شکیل، میر محمد ابراہیم، عائشہ شکیل، اسماء شکیل اور اسماعیل شکیل کو ہدایت علی اور دیگر کی جانب سے میر شکیل الرحمن کی جنرل پاور اٹارنی کے تحت منتقل کئے گئے۔

28 دسمبر 1993ء کو صوبائی اسمبلی کے رکن آفتاب احمد خان نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ درست ہے کہ ایل ڈی اے نے رائے ونڈ روڈ لاہور پر بی آر بی نہر کے ساتھ 72 کنال زمین وزیر اعلیٰ پنجاب کے دبائو پر الاٹ کی ہے۔ اس کے جواب میں ایل ڈی اے نے کہا کہ الاٹمنٹ کے حوالے سے الزامات درست نہیں ہیں اور پلاٹس کی الاٹمنٹ 180 کنال زمین کے استثنیٰ کے عوض کی گئی ہے۔

یکم دسمبر 1998ء کو مسمات شاہینہ شکیل و دیگر کی جانب سے یہ پلاٹ میر شکیل الرحمن کو منتقل کئے گئے۔ اس دوران متعلقہ زمین کے حوالے سے دو سول کیسز دائر کئے گئے جن میں سے پلاٹ نمبر 81 ایچ کے لئے ایک کیس التمش بٹ بنام ایل ڈی اے اور پلاٹ نمبر 111 ایچ کے حوالے سے محمد ارشد بنام ایل ڈی اے مقدمہ دائر کیا گیا۔ دونوں مقدمات سول جج لاہور نے خارج کر دیئے۔

مزید برآں ایل ڈی اے کو دو اشخاص کی جانب سے علیحدہ علیحدہ شکایات بھی موصول ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایچ بلاک کے خسرہ نمبرز میں شامل زمین کے مالک ہیں، یہ دونوں شکایات ایل ڈی اے کی طرف سے زمین کے متعلقہ کاغذات مہیا نہ کرنے کی بنیاد پر خارج کر دی گئیں۔ مندرجہ بالا کیس میں ای ڈی او آر کے فیصلہ کے بعد میر شکیل الرحمن کے زیر قبضہ مجموعی زمین 180 کنال 18 مرلے سے 180 کنال 8 مرلے کم ہو گی اور زمین میں 10 مرلے کمی ہوئی۔