یہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کا نہیں، وفاق اور صوبوں کے وسائل اور کاوشوں کو یکجا کر کے عالمی چیلنج سے نمٹنے کا وقت ہے، ہمیں صوبوں کے ساتھ مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی اپنانا اور سپلائی چین کو معطل ہونے سے بچانا ہے، قرض کے بوجھ تلے دبے ممالک کے قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنے کا معاملہ ہماری تجویز پر جی۔ 20 اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی

جمعرات 26 مارچ 2020 11:35

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مارچ2020ء) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہماری تجویز پر قرض کے بوجھ تلے دبے ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کی فراہمی اور قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنے کا معاملہ جی۔ 20 اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا، یہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کا وقت نہیں ہے یہ وفاق اور صوبوں کی وسائل اور کاوشوں کو یکجا کر کے پوری قوت کے ساتھ اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کا وقت ہے، ہمیں سپلائی چین کو معطل ہونے سے بچانا ہے۔

جمعرات کو پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے حوالے سے بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ کل منعقد ہونے والے پارلیمانی اجلاس کو وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر سپیکر قومی اسمبلی نے بلایا۔ وزیر اعظم یہ چاہتے تھے کہ کہ کورونا کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کیلئے تمام پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کی جائے کیونکہ یہ سوشل آئسولیش کا زمانہ ہے چنانچہ وڈیو لنک کے ذریعے پارلیمانی رہنماؤں کو اکٹھا کیا جائے اور ان کو حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات پر بھی اعتماد میں لیا جائے۔

(جاری ہے)

اس مشاورتی اجلاس کیلئے گذشتہ روز تین بجے کا وقت طے ہوا سپیکر قومی اسمبلی نے بلاول بھٹو سے، شہباز شریف سے اور مولانا فضل الرحمن سے خود بات کی لیکن ان کی اس اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ابہام تھا۔انہوں نے کہا کہ کل وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں تفصیلی بریفنگ دی۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد ہم نے ان سے گذارش کی کہ آپ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں بھی شرکت کریں اور انہیں بھی اس ساری تفصیلات سے آگاہ کریں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ہماری درخواست کو قبول کیا اور اپنی مصروفیات موقوف کر کے ویڈیو لنک کے ذریعے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ پارلیمانی رہنماؤں کا یہ اجلاس پونے چار گھنٹے جاری رہا ہم نے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور چیرمین این ڈی ایم اے سے تفصیلی بریفنگ دلوائی ہم نے سب رہنماؤں کی آراء کو سنا اور میں نے خود ان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو نوٹ کیا اور اجلاس کے اختتام پر ان کا جواب بھی دیا۔

اجلاس شروع ہونے کے کچھ دیر بعد بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف آٹھ کر چلے گئے کہ وزیر اعظم نے ان کی بات نہیں سنی۔ میں نے ان سے گذارش کی کہ یہ وقت اعتراضات اٹھانے کا نہیں، ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے میں شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میری درخواست مان لی اور پھر یہ اجلاس دوبارہ جاری رہا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کا وقت نہیں ہے یہ وفاق اور صوبوں کی وسائل اور کاوشوں کو یکجا کر کے پوری قوت کے ساتھ اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کا وقت ہے۔

میرے علم میں آیا کہ 23 مارچ کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے میں نے وزیراعظم کی ہدایت پر بذریعہ خط یورپی ممالک سے گذارش کی کہ اس عالمی وبا کے تناظر میں وہ ممالک جو قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان کو اگر قرضوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کی جائے اور قرضوں کو ری اسٹرکچر کر دیا جائے تو انہیں اس وبا کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔

ہماری تجویز پر انہوں نے کہا کہ جی۔ 20 کے اجلاس میں ہم اس معاملے کو زیر بحث لائیں گے۔ ورلڈ بینک کے صدر اور آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے بھی اس بات کو اہمیت دی ہے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ ہمیں آؤف دا باکس حل کی طرف جانا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ماحول بن رہا ہے میں آج وزارت خارجہ میں اس بات پر بھی مشاورت کروں گا کہ کیا ہمیں ایک قرارداد اس حوالے سے اقوام متحدہ میں لے جانی چاہیے جس میں جنرل اسمبلی کے تمام اراکین اس معاملے کو زیر بحث لائیں کہ کس طرح ترقی پذیر ممالک جو اس وقت بہت سی معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ان کے قرضوں کو موخر کر کے، وسائل ان کو درپیش عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لئے استعمال میں لائے جا سکیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہو گا ہمیں صوبوں کے ساتھ مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ ہمیں سپلائی چین کو معطل ہونے سے بچانا ہے تا کہ اشیاء ضروریہ کی قلت نہ ہو۔