قیدیوں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس میں ایک اور وکیل نے فریق بننے کی اجازت طلب کرلی

اسلام آباد ہائی کورٹ سے 20 مارچ کو 400 سے زائد زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت دینے کے فیصلے کو چیلنج کیاتھا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 4 اپریل 2020 13:49

قیدیوں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس میں ایک اور وکیل نے فریق ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اپریل۔2020ء) کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس کی سنوائی میں ایک اور وکیل نے فریق بننے کی اجازت طلب کرلی ہے . مرزا عمر اسداللہ نے درخواست میں کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے یکم اپریل کو دیے گئے حکم کا ایک پیرا گراف پڑھا تھا جس میں وکلا سے آئندہ سماعت سے قبل ایک خلاصہ تیار کرنے کے لیے عدالت کی معاونت کا کہا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں درخواست دائر کرنے کی تحریک ملی.

(جاری ہے)

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں راجہ محمد ندیم کی جانب سے وکیل سید نایاب حسن سے توسط سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے 20 مارچ کو 400 سے زائد زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا، اب اس کیس کی آئندہ سماعت پیر 6 اپریل کو ہوگی. اپنی درخواست میں مرزا عمر اسداللہ نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں زیادہ تر کرمنل کیسز لڑے ہیں اس لیے مختلف کیسز میں ان کے قابل قدر حقوق شامل ہیں جو عدالت عظمٰی میں سنوائی کا موضوع ہیں.

خیال رہے کہ یکم اپریل کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ سندھ میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی ہدایات کے تحت 519 قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کے مطابق قیدیوں کی رہائی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر عمل میں آئی. ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ رہا ہونے والے 519 قیدیوں کے نام، سزا کیس کی کارروائی اور دیگر تفصیلات فراہم کی جائیں گی گزشتہ سماعت میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن نے بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کا عنوان تھا کہ ’پاکستانی قیدی کورونا وائرس کی وجہ سے خطرے میں کیوں ہیں.

رپورٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 114 جیلوں میں 57 ہزار 742 قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن 77 ہزار 275 قیدیوں کو رکھا گیا ہے رپورٹ میں کہا گیا کہ ان 77 ہزار سے زائد قیدیوں میں سے 25 ہزار 456 سزا یافتہ ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد 48 ہزار 8 قیدی وہ ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں. اسی طرح خواتین کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد ایک ہزار 184 ہے جبکہ ضعیف یعنی 60 سال کی عمر سے زائد کے قیدیوں کی تعداد تقریباً 1500 ہے ادھر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی ان قیدیوں کی ضمانت کی تجویز دی تھی جن کا جرم معمولی نوعیت کا ہو یا ان کو دی گئی سزا 3 سال سے کم ہو.

خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا. ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاﺅ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے.

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایمرجنسی نوعیت کے حالات ہیں، تمام اقدامات کرنا ہوں گے، ہماری قوم گھبرانے والی نہیں لیکن اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا. اس موقع پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور ہم صرف ان ملزمان کے حوالے سے فیصلہ کر رہے ہیں جو سزا کے بغیر قید ہیں‘چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے.

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟اپیل میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے.

اپیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 20 مارچ والے حکم سے غلطیاں پیدا ہوئیں کہ وہ قانون، آئین اور پبلک پالیسی کے خلاف ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی. جس کے بعد گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا.