وفاقی حکومت نے کورونا وائرس صورتحال کے دوران بہترین حکمت عملی اپنائی ہے، کوئی نہیں جانتا ہے کہ وباء کب تک رہے گی اسلئے عوام کو سہولت دینے کیلئے لاک ڈائون میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا، وزیراعظم عمران خان کا عوامی مفادات کے معاملات پر تحقیقاتی کمیشن بنانا ملک کے فرسودہ نظام کو ٹھیک کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، معاون خصوصی سی ڈی اے امور علی نواز اعوان

جمعرات 21 مئی 2020 00:15

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2020ء) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی ای) امور علی نواز اعوان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے کورونا وائرس صورتحال کے دوران بہترین حکمت عملی اپنائی ہے، کوئی نہیں جانتا ہے کہ وباء کب تک رہے گی اسلئے عوام کو سہولت دینے کیلئے لاک ڈائون میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا، وزیراعظم عمران خان کا عوامی مفادات کے معاملات پر تحقیقاتی کمیشن بنانا ملک کے فرسودہ نظام کو ٹھیک کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔

بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوگرایڈوائزری بورڈ نے ای سی سی کو بتایا تھا کہ 20لاکھ ٹن شوگر دستیاب ہے، اگر 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دیدی جائے تو پھر بھی ہمارے پاس10 لاکھ ٹن چینی موجود ہو گی جس کے بعد چینی برآمد کی اجازت دی گئی، مسئلہ یہ ہے کہ چینی بھی کم نہیں ہے اور قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اسلئے وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم دیا۔

(جاری ہے)

علی نواز اعوان نے کہا کہ آج جمعرات کو کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے، امید ہے کہ اجلاس میں چینی کی رپورٹ پیش کی جائے گی، وزیراعظم عمران خان ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں چینی کی قیمت 104 روپے ہو گئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کی قیمتیں کم کی گئی تھیں، اسی طرح ن لیگ کے دور میں آٹے کا بحران آیا تو کہا گیا کہ شیر آٹا کھا گیا لیکن کبھی تحقیقات نہیں کرائیں گئیں۔

معاون خصوصی برائے سی ڈی اے امور نے کہا کہ چینی پر پہلی مرتبہ سبسڈی نہیں دی گئی، گزشتہ 70 برسوں سے سبسڈی دی جاتی رہی ہے، نظام میں بہتری کی ضرورت ہے، نظام ٹھیک ہوتا تو آج ہم سبسڈی اور قیمت پر بحث نہ کر رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے چینی اور آٹے بحران کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا ہے جو کہ نظام کو ٹھیک کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی طور پر اتنا مستحکم نہیں کہ طویل عرصے تک لاک ڈائون برقرار رکھتے، کورونا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کا بحال ہونا ضروری تھا تاکہ دیہاڑی دار اور مزدور طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو اور ملک کی معاشی صورتحال بھی بہتر ہو۔