بڑی شوگر ملز نے فروخت میں کمی دکھائی، اکاؤنٹنگ میں فراڈ کیا، وفاقی حکومت نے چینی بحران فورنزک رپورٹ پبلک کر دی

الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں،کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا اور اسے لوٹا گیا، کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی،کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کیلئے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے،پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا،اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا،قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ،انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں،چینی کی بے نامی فروخت دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، کوئی ٹرک ڈرائیور نکل رہا ہے تو کوئی کچھ اور یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، جس میں سیلز ٹیکس ادا نہیں ہورہا اور چینی اسمگل ہورہی ہے تو اس پر ڈیوٹی ادا نہیں کی جارہی،سندھ کی جانب سے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے چینی کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی، پنجاب 3 ارب سے زائد روپے کی سبسڈی دی ،پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمدی ڈیٹا میں فرق پایا گیا جس سے اربوں روپے کا فرق آتا ہے،افغانستان میں چینی کی برآمد مشکوک ہے اور اس حوالے سے ٹی ٹی موجود ہے،ریگولیٹری نظام میں بنیادی ریگولیشن کی کمی ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے، شہزاد اکبر کی وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس

جمعرات 21 مئی 2020 23:05

بڑی شوگر ملز نے فروخت میں کمی دکھائی، اکاؤنٹنگ میں فراڈ کیا، وفاقی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مئی2020ء) وفاقی حکومت نے چینی بحران فورنزک رپورٹ پبلک کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے،شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں،کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا اور اسے لوٹا گیا، کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی،کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کیلئے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے،پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا،اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا،قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ،انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں،چینی کی بے نامی فروخت دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، کوئی ٹرک ڈرائیور نکل رہا ہے تو کوئی کچھ اور یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، جس میں سیلز ٹیکس ادا نہیں ہورہا اور چینی اسمگل ہورہی ہے تو اس پر ڈیوٹی ادا نہیں کی جارہی،سندھ کی جانب سے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے چینی کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی، پنجاب 3 ارب سے زائد روپے کی سبسڈی دی ،پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمدی ڈیٹا میں فرق پایا گیا جس سے اربوں روپے کا فرق آتا ہے،افغانستان میں چینی کی برآمد مشکوک ہے اور اس حوالے سے ٹی ٹی موجود ہے،ریگولیٹری نظام میں بنیادی ریگولیشن کی کمی ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی حکومت میں ہمت نہیں تھی کہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اور اسے پبلک کرے۔انہوں نے کہا کہ ہم اسے سراہنا چاہیے کہ ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں، دسمبر 2018 سے لے کر اگست 2019 تک چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا جو 17 روپے بنتا ہے اور 2019 کے بعد بھی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اسی اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) واجد ضیا کی سربراہی میں 3رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں بحران اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ بننے والے شوگر انڈسٹری کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور رواں سال کے اوائل میں انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ واجد ضیا تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس انکوائری کمیشن نے جو کام کیا اسے ایک حتمی رپورٹ کی صورت میں کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کیلئے خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا، واجد ضیا کابینہ کو رپورٹ کے بنیادی نکات اور سفارشات سے متعلق بریفنگ دی۔شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا جب بھی سیاست میں آئے گا تو وہ سیاست میں آکر بھی کاروبار کرے گا اور عوام کے خرچے پر کرے گا اور رپورٹ میں سامنے آنے والی باتیں وزیراعظم کے بیان کی 100 فیصد تصدیق کرتی ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جو گنے کی خریداری سے لے کر، چینی کی تیاری، اس کی فروخت اور برآمد تک ہیں، رپورٹ میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور اسے لوٹا گیا، رپورٹ میں یہ پایا کہ شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فورنزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 کے بعد کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی، تقریباً تمام شوگر ملز گنے کے وزن میں 15سے لے کر 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے اور مل مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے،ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مل مالکان جب چینی کی پیداواری لاگت ظاہر کرتے ہیں تو گنے کی قیمت اس حوالے سے مختص نرخ سے بھی زیادہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ کمیشن نے وہ شواہد معلوم کیے ہیں جہاں گنا کم قیمت میں خرید کر اور ساتھ ساتھ کٹوتی کرکے مزید کم ادائیگی کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی ملز مالکان ان آفیشل بینکنگ بھی کرتے ہیں اور ایڈوانس میں پیسے دیتے ہیں یا تو فرٹیلائزر کی مد میں کچھ دیا جاتا ہے جو باضابطہ طریقہ کار نہیں ہے اور اس سے بھی 35 فیصد تک منافع کما کر کسان کو کم ادائیگی کی جاتی ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح لٴْوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی پچھلی رپورٹ اور فورنزک رپورٹ میں یہ تعین کردیا گیا ہے کہ حکومت کے ادارے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے تخمینے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ یہ حکومتی اداروں اور ریگولیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ ایک کلو چینی کتنے پیسے میں تیار ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل تھا کہ چینی کی پیداواری لاگت معلوم کرنی ہے، جب معلوم کیا گیا تو اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا۔شہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے، شوگر ملز نے 18-2017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ 19-2018 میں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی فی کلو قیمت 52 روپے 6 پیسے متعین کی جبکہ کمیشن کی متعین کردہ قیمت 40 روپے 6 پیسے ہے جو ساڑھے 12 روپے کا فرق ہے۔انہوں نے کہا کہ 20-2019 میں چینی کی متعین کردہ قیمت 62 روپے فی کلو ہے جسے کمیشن نے 46 روپے 4 پیسے متعین کیا ہے اور یہ واضح فرق ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس (گنے کی پھوک) اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آگیا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ جس قیمت پر گنا خریدا جارہا ہے اگر ایمانداری سے چینی کی وہی قیمت مختص کی جائے تو ایک واضح فرق آئے گا۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے اس حوالے سے سکروز کانٹینٹ کا ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ گنے میں سے نکالی جانے والی چینی کا تناسب کیا ہے اسے شوگر ملز 9.5 سے 10.5 کاؤنٹ کرتی ہے جس سے کمیشن اتفاق نہیں کرتا، اس حوالے سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، پی سی ایس آئی آر یا شوگر ملز کے علاوہ کوئی لیبارٹری یہ معلوم کرسکتی ہے جو کہ پہلے کبھی آزادانہ طریقے سے معلوم نہیں کی گئی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملز اپنے خسارے کو بھی پیداواری لاگت میں شامل کرتی ہیں تو ان وجوہات کی وجہ سے چینی کی قیمت زیادہ دکھائی جاتی ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ کمیشن کے مطابق مختلف طریقوں سے چینی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے جس کا فائدہ بروکر یا مل مالکان کو ہوتا ہے اور اس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے جسے چینی کی دٴْگنی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن کا ماننا ہے یہ سب مل مالکان کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سٹہ کیسے ہوتا ہے جس کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30فیصد زائد کا فرق آرہا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ کمیشن کے مطابق اگر 4 یا 5 فیصد گنا، گڑ کے ییئبھی رکھ دیں تو بھی صرف اس سال کا جو گنا رپورٹ نہیں ہورہا ہے اس کا تخمینہ 1.7 میٹرک ٹن چینی ہے جو کرش ہوئی لیکن رپورٹ نہیں ہوئی اور اس پر کوئی ٹیکس بھی ادا نہیں کیا گیا۔شہزاد اکبر نے کہا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی کی بے نامی فروخت دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، کوئی ٹرک ڈرائیور نکل رہا ہے تو کوئی کچھ اور یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، جس میں سیلز ٹیکس ادا نہیں ہورہا اور چینی اسمگل ہورہی ہے تو اس پر ڈیوٹی ادا نہیں کی جارہی۔معاون خصوصی نے کہا کہ مل مالکان نے کرشنگ کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے جو قانون کے خلاف ہے، جس کے لیے لائسنس حاصل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن پیداواری لاگت میں سیلز ٹیکس بھی شامل کررہی ہے، چینی کی قیمت میں اگر صرف ایک روپیہ اضافہ کرکے بھی 5 ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا جاتا ہے، یہاں تو ہر سال 10 سے 12 روپے کی اضافی لاگت دکھائی گئی ہے اور مارکیٹ میں کی جانے والی ہیرا پھیری الگ ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ پچھلے 5 سالوں میں چینی کی برآمد پر 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، 2015 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی، 2016 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے، 18- 2017 میں کوئی سبسڈی نہیں دی گئی، 2018 میں وفاق 15 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی اور 4 ارب 10 کروڑ روپے کی اضافی سبسڈی یعنی 9.3 روپے فی کلو کی سبسڈی سندھ حکومت نے دی۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے لکھا کہ سندھ کی جانب سے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، جب وفاق کی جانب سے سبسڈی مل رہی ہے تو اس میں 9.3 روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے اور سندھ میں سب سے زیادہ شیئر اومنی گروپ کا تھا۔معاون خصوصی نے کہا کہ 20-2019 میں وفاق نے چینی کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی، اس میں پنجاب 3 ارب سے زائد روپے کی سبسڈی دی جس میں سے 2 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی واپس لی گئی، ان تمام سبسڈیز کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی پیداوار لاگت کو علیحدہ سے جانچ نہیں کرتے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 2018 میں دی جانے والی سبسڈی میں چینی کی پیداواری لاگت کا آزادانہ تعین نہیں کیا گیا، برآمد کے حوالے سے سب سے حیران کن بات سامنے آئی کہ ملک میں 88 شوگر ملز، 29 ارب کی سبسڈی لیتی ہیں، 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس ہے جس میں سے 12 ارب روپے کا ریفنڈ ہے ، اس طرح صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا اور یہ کاروبار عوام کے دیے ہوئے پیسے سے چل رہا ہے۔

معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ پاکستان سے 68 فیصد چینی افغانستان برآمد کی جاتی ہے جس میں کافی مسائل پائے گئے، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمدی ڈیٹا میں فرق پایا گیا جس سے اربوں روپے کا فرق آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن وزن لے کرجاسکتا ہے ، لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ ایک ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے جائی گئی یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ افغانستان میں چینی کی برآمد مشکوک ہے اور اس حوالے سے ٹی ٹی موجود ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کارٹیلائزیشن یہ ہے کہ ملز مالکان بلیک میل کرتے ہیں، یکدم ہڑتال کی جاتی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو چینی نہیں دینی وغیرہ یہ سب شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے 6 بڑے گروہ جو پاکستان کی چینی کی 51 فیصد پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کے پیداواری حجم کی بنیاد پر آڈٹ کیا گیا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ فورنزک آڈٹ میں سب سے پہلے الائنس مل کو شارٹ لسٹ کیا گیا جو آر وائے کے گروپ کی مل ہے، اس میں پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-کیو) کے رہنما مونس الہی کے مختلف کمپنیوں کے ذریعے 34 فیصد شیئرز اور عمر شہریار کے 20 فیصد شیئرز ہیں۔انہوں نے کا کہ الائنس مل نے 2014 سے 2018 تک کسانوں کو رقم کی ادائیگی میں 11- 14 فیصد کٹوتی کی اور انہیں 97 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، اسی دوران انڈر رپوٹڈ چینی کی فروخت بھی شامل ہے جو بینامی خریداروں کو بیچی گئی، انہوں نیکہا کہ رپورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔شہزاد اکبر نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نیکرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا، بگاس اور مولیس کی فروخت کو انڈر انوائس کیا جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں کارپوریٹ فراڈ بھی سامنے آیا اور جے ڈی ڈبلیو کی جانب سیفارورڈ سیلز، بے نامی فروخت اور سٹہ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف گروپ کی العربیہ مل کا بھی فرانزک آڈٹ کیا گیا جس میں ڈبل اکاؤنٹنگ اور دو کھاتوں کے شواہد موجود ہیں اور انہوں نے آر کے نام سے رپورٹڈ اور این آر کے نام سے نان رپورٹڈ کھاتے رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ العربیہ مل میں کچی پرچیوں کے ذریعے 40 کروڑ روہے کا فراڈ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کی گئی۔معاون خصوصی نے رپورٹ میں موجود سفارشات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریگولیٹری نظام میں بنیادی ریگولیشن کی کمی ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری اداروں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (نیب) کو اپنی ریگولیشن میں اضافہ کرنا چاہیے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کسانوں کو مکمل ادائیگی یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کے لیے، کھاتوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے، یہ چوری کی گئی رقم ہے جسے لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔معاون خصوصی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ نگرانی کے طریقہ کار کو مزید مضبوط بنایا جائے، یہ رپورٹ پبلک کرنا اس کی شروعات ہے۔