تحریک کشمیر گلف کے تحت سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم و مغفور سید منور حسن صاحب کے حوالے سے آن لائن تعزیتی اجلاس کا انعقاد

تحریک کشمیر گلف کی طرف سے ڈاکٹر احمد جاوید نے میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے

Umer Jamshaid عمر جمشید ہفتہ 11 جولائی 2020 14:24

قطر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 جولائی2020ء) تحریک کشمیر گلف کے تحت سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم و مغفور سید منور حسن صاحب کے حوالے سے آن لائن تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا،تحریک کشمیر گلف کی طرف سے ڈاکٹر احمد جاوید نے میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے۔ جس میں پاکستان، خلیجی ممالک اور یو کے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات سمیت کثیر تعداد نے شرکت کی۔

تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ قاری عبداللہ فاروق صاحب نے قرآن پاک کی تلاوت کی اور اردو ترجمہ انکے والد گرامی نے کیا۔ اسکے بعد محترم جناب منور حسن صاحب کی تحریکی خدمات کے حوالے سے ایک وڈیو دکھائی گئی جس میں انکو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسکے بعد پروگرام میں شریک مہمانان گرامی نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سید صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

(جاری ہے)

معزز مہمانوں میں (صدر تحریک کشمیر یورپ) محمد غالب صاحب، (کویت کی جانی مانی سماجی اور کاروباری شخصیت ) حافظ محمد شبیر صاحب، (چیئرمین کویت پاکستان فرینڈ شپ ایسوسی ایشن ) رانا محمد اعجاز صاحب، (ہیڈ ملٹی میڈیا اردو پوائنٹ اور مصروف صحافی) شاہد نزیر چوھدری صاحب، (سابق صدر اسلامک ایجوکیشن کمیٹی کویت) اخلاق احمد صاحب، (صدر تحریک کشمیر یوکے) فہیم کیانی صاحب، (الخدمت فاؤنڈیشن اسلام آباد کے ذمہ دار اور کالم نگار) شہزاد عباسی صاحب، (پاکستان انٹرنیشنل سکول قطر کے مدرس)ضیا الرحمن صاحب، (مدرس لجنہ تعریف الاسلامیہ و اسلامک ایجوکیشن کویت) ملک ارشاد صاحب، اسکے علاوہ قاسم رضا صاحب، شکیل مرتضی صاحب، شاکر شفیع صاحب اور عبدالعزیز صاحب نے بھی اظہار تعزیت کیا۔

شرکاء کا کہنا تھا کہ سید منور حسن رح ایک عہد ساز شخصیت اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ انہوں نے بڑی بے باک اور نظریاتی زندگی گزاری۔ وہ تحریک اسلامی کے زبردست داعی تھے۔ مولانا مودودی رح کے قلم نے انہیں اس طرح اپنا بنا لیا کہ پھر انہوں نے آنکھ اٹھا کر کسی اور طرف نہیں دیکھا۔ اسلامی نظام کے نفاذ بذریعہ انقلاب ان کی زندگی کا اول و آخر مقصد تھا۔

دوست و مخالفین سب انکی سچائی اور صاف گوئی کے معترف تھے۔ وہ بہت زبردست اور شائستہ مقرر تھے، انگریزی زبان پر بڑی دسترس تھی، بولتے تو سماں باندھ دیتے، آج کے سیاسی دور میں اس اسلوب کا مقرر بہت کم نظر آتا ہے۔ وہ پروفیسر خورشید احمد کی علمی روایت، میاں طفیل محمد کی للہٰیت اور قاضی حسین احمد کی بے تابی کے امین تھے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ ہمیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے چاہیں تاکہ پاکستان میں ایماندار طبقہ اوپر آسکے اور پاکستان اپنی اصل اساس پر گامزن ہو سکے۔ تقریب کے آخر میں انکی مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کی گئی اور تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔