اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب بارے سینیٹ کمیٹی کا جبری مذہب کی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار ، مناسب قانون سازی کی سفارش

,جبری تبدیلی مذہب سے متعلق تمام صوبوں سے جواب طلب ، آئندہ اجلاس میں شادی سے متعلق ولی کی شرط پر علما کی رائے لینے کا فیصلہ

پیر 24 اگست 2020 23:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 اگست2020ء) اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے سینیٹ کمیٹی نے سندھ سمیت ملک بھر میںجبری مذہب کی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مناسب قانون سازی کی سفارش کی ہے۔کمیٹی کا اجلاس سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ہوا اجلاس میں اراکین کمیٹی کے علاوہ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سمیت وزارت انسانی حقوق کے افسران نے شرکت کی اس موقع پر وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایاکہ چند عرصہ قبل دو ہندو لڑکیوں کا کیس آیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیٹی بنائی تھی انہوںنے کہاکہ بچیوں کی شادی کے معاملات اور تبدیلی مذہب پر بات اہم ہے اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر قبلہ آیاز نے کمیٹی کو بتایاکہ جو نکات اسلامی نظریاتی کونسل نے طے کئے وہ حرف آخر نہیں ہے آئین میں اور مذہب میں بھی جبری تبدیلی مذہب پر سزا طے ہے انہوں نے کہاکہ جنوری 2020 میں اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ واقعاتی مطالعہ کیا جائے انہوں نے کہاکہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فیصلہ اقلیتوں کے لئے اہم ترین فیصلہ ہے اس کے بعد اقلیتی کمیشن بنایا گیا اور کونسل کو ممبر بنایا گیا ہے اس موقع پر سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہاکہ اصل مسائل کو دیکھ کر ہم نے حل نکالنے ہوں گے انہوں نے کہاکہ این جی اوز کا ایجنڈا ہوتا ہے اور جبری تبدیلی مذہب کے معاملات کا معائنہ کیا جائے انہوں نے کہاکہ جبری کمشدگی کا معاملہ برطانوی پارلیمنٹ اور یو ایس کانگریس میں گیا تو مسائل بڑھ جائیں گے ڈیٹا کا مسلہ ہے اور ہر دوسرے روز سندھ سے نئے کیسز سامنے آتے ہیں انہوں نے کہاکہ سندھ میں موجود میاں مٹھو کا مکمل نام نہیں جانتی ان کا پورا نیٹ ورک ہے یہ معصوم بچیوں کو گھوٹکی سے پکڑتے ہیں اور پنجاب میں لے آتے ہیں یا رحیم یار خان لیجاکر وہاں شادی ہوتی ہے کیونکہ پنجاب میں شادی کی عمر کم ہے انہوں نے کہاکہ یہ نیٹ ورک ہے اور اگر شادی ہوتی ہے تو نکاح کی رجسٹریشن سندھ میں ہونی چاہیے ڈاکٹر مکیش کمار نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سے بھی نکل نہ پائیں گے اگر جبری تبدیلی مزاہب کے کیس چلتے رہے انہوں نے کہاکہ یہ سب سے بڑا فورم ہے جو وزیر اعظم اور سینیٹ چیئرمین کی خواہش سے بنا ہے یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور اسی ماہ اس کو حل کرنا ہے برطانوی پارلیمنٹ ، امریکی کانگریس سمیت ایف اے ٹی ایف میں ان منفی پوائنٹس کو شامل کیا جا سکتا ہے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ سیکرٹری سندھ کی حکومت سے بات کر لیں انہیں لکھیں کہ کتنے لوگ جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہوئے انہوں نے کہاکہ ریاست نہیں بلکہ کوئی شخص اکیلے اس عمل میں شریک ہے جس پر وفاقی وزیر شیری مزاری نے کہاکہ اگر کوئی شخص اکیلے اس کا ذمہ دار ہو یا نہ ہو ہمیں یہ دیکھننا ہوگا کہ ریاست ایسے اقدامات پر کیا کر رہی ہے انہوں نے کہاکہ صوبوں کو جلد اس پر کام کرنا ہو گا اورگھوٹکی سمیت سندھ کے دیگر جگہوں پر نمائندوں کو ایکٹیو کیا جائے رکن کمیٹی کھیل داس نے کہاکہ ہم بات نہیں کر سکتے بین القوامی سطح پر اتنے حالات خراب ہیں اس ملک سے پیار کی وجہ سے ہم بات نہیں کر سکتے بھارت منفی خبر بنا لیتا ہے انہوںنے کہاکہ سندھ میں قانون بنانے پر کام ہوا لیکن گورنر نے دستخط نہیں کئے اس موقع پر چیرمین کمیٹی نے کہاکہ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اس اہم ترین مسلے کو جواب نہیں دے رہے ہیں جے یو آئی کے مولانا واسع کو اس کمیٹی میں آنا چاہیے کیونکہ اگر کمیٹی نے کوئی قدم اٹھایا تو بعد میں یہ لوگ سازشیں کرتے ہیںانہوںنے کہاکہ جے یوآئی کے رکن کمیٹی پہلے ہی آکر رائے دیں ورنہ کمیٹی فیصلہ کرے گی اس موقع پر وفاقی وزیر شیری مزاری نے کہاکہ ہر مذہب اور مسلک کے نمائندے سے اہم اہم معاملے پر موقف کیا جائے۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے جبری تبدیلی مذہب سے متعلق تمام صوبوں سے جواب طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں شادی سے متعلق ولی کی شرط پر علما کی رائے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ظفر ملک