قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کی لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی مذمت

واقعات کے سدباب کے لئے انصاف کا فوری نظام‘ عصمت دری کے واقعات میں سزائوں کی شرح میں اضافے،معاشرے کو ایسے جرائم سے روکنے کے لئے آگاہی کی ضرورت ہے قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کا بحث کے دوران خطاب

بدھ 16 ستمبر 2020 12:05

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2020ء) قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں نے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سدباب کے لئے انصاف کے فوری نظام‘ عصمت دری کے واقعات میں سزائوں کی شرح بڑھانے اور معاشرے کو ایسے جرائم سے روکنے کے لئے آگاہی کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ اراکین نے اعلیٰ پولیس آفیسر کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیان اور لاپرواہی کے ذمہ داروں کو ملازمت سے برخاست کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

منگل کو قومی اسمبلی میں عبدالاکبر چترالی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جو واقعہ سرزد ہوا ہے اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی خواتین ونگ نے ملک بھر میں مظاہرے بھی کئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر زینب الرٹ بل کے وقت اسلامی قوانین اور سزائوں کا خیال رکھا جاتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ موجودہ قوانین اپاہج ہیں۔ اس میں مجرم کو سزا نہیں مل رہی۔

جب تک رجم کا قانون نافذ نہیں ہوتا تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق قانون رجم بنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مرد کو ناکارہ بنانے کی بات کی گئی ہے لیکن اس میں سقم ہیں کیونکہ خواتین کی طرف سے مردوں کو اغواء کرنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ریپ کے ملزموں کو سرعام سزائے موت دی جائے۔

ہر ضلع میں شرعی عدالت قائم کی جائے اور انہیں ٹائم فریم دیا جائے۔ ان عدالتوں کے فیصلہ شدہ مقدمات میں اپیل کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح کے واقعات ناقابل مصالحت قرار دیئے جائیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ واقعہ سے پوری قوم کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ملک میں سزا اور جزاء کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث لوگوں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک فعال نظام نہیں ہوگا مجرم بچتے رہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ بار کونسلز اور خواتین کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے۔ غوث بخش مہر نے لاہور واقعہ پر تجویز دی کہ پولیس پٹرولنگ ان شاہراہوں پر رات کے وقت بھی ہونی چاہیے۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ اپنے محرم کے بغیر نہ نکلیں۔ اسلام میں ان جرائم کے لئے جو سزائیں موجود ہیں ان کو رائج کیا جائے۔

مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ خواتین پاکستان کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ موٹروے پر اس حادثے سے پورا ملک ہل کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دو سال کے بچے سے لے کر 80 سال کے بوڑھے لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ سی سی پی او لاہور کے بیان کی مذمت کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کو مدعی بننا چاہیے۔ سزا نہ ہونے کی وجہ سے مجرم فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ہمیں ایک نکاتی ایجنڈے پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔ اس معاملے پر فوری طور پر کمیٹی تشکیل دی جائے جو قانونی سقم دور کرنے کے لئے سفارشات تیار کرے۔ انجینئر صابر حسین قائم خانی نے کہا کہ اس واقعہ نے قوم کے اجتماعی ضمیر کو جگا دیا ہے۔ یہ کسی عورت کا مسئلہ نہیں معاشرے کی گراوٹ کا مسئلہ ہے۔ ہم میں سے ہر بھائی‘ بیٹا اور باپ خواتین کے ساتھ کھڑا ہے۔

قوانین ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ دن ہو یا رات ہر شہری کی عزت ‘ جان و مال محفوظ ہونا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جائے اور ایسی موبائل ایپ بنائی جائے جس کے ذریعے پورے ملک میں آواز گونجے۔ اجلاس کے صدر نشیں ریاض فتیانہ نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ون بٹن ایپ بنائی جائے اور 130 پر کال کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہوا ہے۔ سارا ملک جاگ گیا ہے۔ ہمیں ایسے واقعات کے سدباب کے لئے اقدامات اٹھانے ہیں۔ سی سی پی او کے بیان سے زیادتی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ایوان کی قرارداد کے ذریعے ایسے پولیس افسر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے۔ قانون میں ترمیم کے ذریعے ان واقعات کا سدباب کیا جائے اور قانون پر عملدرآمد کرانے کے لئے پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔

محسن داوڑ نے بحث میںحصہ لیتے ہوئے کہا کہ موٹروے واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سزائوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کوتاہی کے مرتکب افسران متنازعہ بیانات دے رہے ہیں۔ حکومت اگر ایسے آفیسر کو ہٹاتی نہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ اس آفیسر کو اپنے عہدے سے ہٹایا جائے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔

کیا کوئی مسلمان ایسا بدبخت ہو سکتا ہے جیسا ان لوگوں نے کیا ہے۔ پاکستان کے عوام کا اس ایوان سے یہ سوال ہوگا کہ آپ نے کیا کیا۔ اس واقعہ کی جوڈیشل یا ایوان کی کمیٹی اگر اس معاملہ کی تفتیش کرے جو بھی ذمہ دار ہو جس کی کوتاہی ہو اس کو ملازمت سے برخاست کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال میں پانچ آئی جی تبدیل کردیئے گئے۔ جس افسر نے اس واقعہ پر مضحکہ خیز بیان دیا اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔

سزا تجویز کرنے سے پہلے سزائوں پر عملدرآمد کی شرح دیکھی جائے۔ ٹائم لائن کا تعین نہیں کریں گے تو موثر قانون سازی ممکن نہیں۔ عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے لوگ تنگ آکر صلح کر لیتے ہیں۔ ایسے واقعات پر نہ جرگہ اور نہ راضی نامہ ہو۔ انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ تمام صوبے اور وفاق ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مل کر بیٹھیں۔ پارلیمانی سیکرٹری کنول شوذب نے کہا کہ وجود زن سے کائنات میں رنگ ہے۔

پاکستان میں حقیقی جمہوریت تحریک انصاف اور عمران خان لائے ہیں۔ قائد حزب اختلاف اپنی غیر سنجیدہ باتوں پر معافی مانگیں۔ انسان کی فطرت جانوروں کی طرح نہیں ہے۔ انہیں جب درندگی کا موقع ملتا ہے تو یہ درندگی سے باز نہیں آتے۔ ایسے ایشوز کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جاگ گئے ہیں لیکن یہ صورتحال کم نہیں ہوئی۔ جرائم روکنے کے لئے بطور معاشرہ ہم نے کیا ذمہ داری اٹھانی ہے یہ دیکھنا ہے۔

عورت کو تمام حقوق دیئے جائیں۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ ہے کہ موٹروے واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت قانون بنائے جائیں۔ سروسز ایریاز میں پولیس سٹیشن بنایا جائے۔ چوہدری اشرف نے کہا کہ جن افسران نے لاپرواہی کی اور خاتون کے فون کرنے پر مدد کو نہیں پہنچے انہیں سزا دی جائے۔

شیر علی ارباب نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی ہونی چاہی کہ قانون پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا۔ ایسے واقعات میں ملوث لوگوں کا ڈیٹا ہونا چاہیے۔ کھیئل داس نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب افراد کے لئے سرعام پھانسی کی سزا کا میرا قانون یہاں منظور نہیں کیا گیا۔ اس کی کوئی سپورٹ نہیں کرتا۔ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ رکن قومی اسمبلی عطااللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسے مجرموں کو قرآن و سنت کے مطابق سزائیں دی جائیں۔

اس سے ایسے واقعات میں کمی آئے گی۔ آغا حسن بلوچ نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے واقعہ میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ شیخ سعد وسیم نے کہا کہ پاکستان خواتین کے لئے دنیا کے چھ خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ عصمت دری کے 95 فیصد مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی صالح محمد نے کہا کہ 2005ء کے زلزلہ متاثرین آج بھی شیلٹروں میں ہیں۔ انفراسٹرکچر نہیں بنایا گیا۔ تین ارب ڈالر امداد کہاں گئی۔ اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔ اس کی انکوائری کے لئے کمیٹی بنائی جائے۔ بکریال سٹی کی الاٹمنٹ کی جائے۔ رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی‘ سیمی بخاری‘ محمود شاہ اور ڈاکٹر ثمینہ مطلوب نے بھی بحث میں حصہ لیا۔