جاوید چوہدری نے مجرموں کو ’سرعام پھانسی‘ دینے کو پنجابی سوچ قرار دے دیا

اگرشادی شدہ مجرم کو جنسی صلاحیت سے محروم کیا جاتا ہے تو یہ سزا اسے نہیں اس کی بیوی کو ملے گی،بیوی کا اس میں کیا قصور ہے؟مجرم شوہر اگر سزا کے بعد بیوی کو طلاق دے تو اس کے بچوں کی پرورش کون کرے گا۔جاوید چوہدری

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 17 ستمبر 2020 15:44

جاوید چوہدری نے مجرموں کو ’سرعام پھانسی‘ دینے کو پنجابی سوچ قرار دے ..
لاہور (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔17 ستمبر 2020ء) سینئر صحافی جاوید چوہدری نے اپنے حالیہ کالم میں سانحہ موٹروے اور زیادتی کے مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کیے جانے پر لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی زیادتی کا کیس سامنے آتا ہے، ملک میں سرعام پھانسی کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ہم بہت فخر سے ایران اورسعودی عرب کی مثالیں دیتے ہیں۔یہ خالص پنجابی سوچ ہے۔

ہم پنجابی کاٹ دیں،لٹکا دیں اور جلا دینے کے قائل ہیں۔ہم پنجابی صرف مجرم کو سزا نہیں دیتے بلکہ ہم اس کے خاندان کو بھی سزا دیتے ہیں،قاتل کی بچیاں ونی کر دی جاتی ہیں۔مردوں کے جرم پر اُن کے گھر کی عورتوں کو برہنہ کر کے بازار میں پھرایا جاتا ہے۔پنجاب پولیس ہمیشہ چور،زناکار اور قاتل کے خاندان اور برادریوں تک پھیلاتے ہیں۔

(جاری ہے)

آپ سوچ ملاحظہ کیجئے کہ سانحہ موٹروے کے بعد وزیراعظم نے بھی فرمایا کہ زیادتی کے مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہئیے۔

آپ کر دیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مجرم شادی شدہ ہے تو یہ سزا اسے نہیں اس کی بیوی کو ملے گی،بیوی کا اس میں کیا قصور ہے اور مجرم شوہر اگر سزا کے بعد بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو اس کے بچوں کی پرورش کون کرے گا۔کیا وہ کل کو ڈاکو نہیں بن جائیں گے۔جاوید چوہدری مزید لکھتے ہیں کہ سرعام پھانسی جب عام آدمی دیکھے گا تو اس کی کے ذہن پرکیا اثر پڑے گا۔

آپ نے یہ سوچا؟ آج سے سو سال پہلے بھی دنیا میں سر عام پھانسیاں ہوتی تھیں لیکن پھر انسان نے تاریخ سے سیکھا کہ یہ وحشت اور بربریت ہے اور ریاست کو کبھی وحشی نہیں ہونا چاہئیے۔چنانچہ مجرموں کو جیلوں میں سزائے موت دی جانے لگی۔دنیا میں آج صرف سعودی عرب اور ایران دو ملک ہیں جہاں سرعام پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اور یہ ملک بھی اس پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

دنیا میں اگر سرعام پھانسیوں سے جرم رک سکتے تو ایران اور سعودی عرب میں رک گئے ہوتے۔جب کہ دنیا کے 20کرائم فری ملکوں میں نہ کسی کو لٹکایا جاتا ہے اور نہ ہی کاٹا جاتا ہے لیکن وہاں 20 سال سے موٹروے جیسی کوئی واردات نہیں ہوئی کیونکہ ان ملکوں میں سزا پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ جرائم کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ہم اپنی پنجابی سوچ کے ذریعے ملک کو مزید برباد کرنا چاہتے ہیں۔آپ بے شک سانحہ موٹروے کے مجرموں کو سزائے موت دیں لیکن انہیں سرعام لٹکا کر پورے ملک کو بیمار نہ کریں۔انسان کو مرتے ہوئے دیکھانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔