پیپر بیلٹ اور الیکٹرونک ووٹنگ، ٹیکنالوجی اور اعتبار

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 20 نومبر 2020 18:20

پیپر بیلٹ اور الیکٹرونک ووٹنگ، ٹیکنالوجی اور اعتبار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 نومبر 2020ء) یورپ اور کینیڈا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں اب بھی کاغذی بیلٹ ہی کے ذریعے روایتی انداز سے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ امریکا میں بھی کاغذی بیلٹ سے الیکٹرونک ووٹنگ اور پھر الیکٹرونک ووٹنگ سے ایک بار پھر کاغذی ووٹنگ کی طرف لوٹا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کیوں ووٹنگ کے لیے روایتی طریقہ کار پر انحصار کرتے ہیں؟

اکثریت نہ ملی تو صدر کا انتخاب کیسے ہو گا؟

روسی ہیکرز گروپ نے امریکی سروسز کو نشانہ بنایا: امریکا

ہائی ٹیک ووٹنگ سسٹم ووٹوں کا آڈٹ کیسے ہو؟

کاغذی ووٹ کی عدم موجودگی میں ووٹنگ مشین کے سوفٹ وئیر یا ہارڈ وئیر میں موجود کسی بھی سقم کی صورت میں ووٹوں کا آڈٹ ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

عمومی طور پر ایسی کسی خرابی کا سراغ ہی نہیں لگایا جا سکتا اور اگر غلطی پکڑی بھی جائے، تو بھی ووٹوں کا آڈٹ ایک بے حد مشکل یا شاید ناممکن عمل ہو۔
سن 2018 میں ایک ہیکنگ کانفرنس میں ایک کمپیوٹر ماہر نے امریکا کا انتخابی ڈی آر اے نظام ہیک کرنے کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ امریکی ریاست جارجیا میں بغیرکاغذ ووٹنگ نظام رائج تھا، تاہم سن 2018 میں گورنر اور ٹیکساس میں سینیٹ کے کانٹے دار مقابلے کے وقت کہا گیا تھا کہ الیکٹرونک مشینوں میں ڈیموکریٹک رہنماؤں کے ووٹ ریپلکن رہنماؤں کی کھاتے میں ڈالے گئے۔

ممکنہ طور پر یہ سوفٹ وئیر کا سقم تھا، تاہم ایسے میں ووٹوں کا آڈٹ ممکن نہیں تھا۔

بلاک چین ووٹنگ بھی جمہوریت کے لیے خطرہ

دنیا بھر میں زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی خواہش میں آن لائن ووٹنگ پروجیکٹس کا شور ہے، تاہم سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی انٹرنیٹ الیکشن نظام کی صورت میں حملے کا خطرہ موجود ہو گا۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق بلاک چین نظام کے تحت اگر موبائل فون کے ذریعے ووٹنگ کا نظام متعارف کیا جاتا ہے، تو یہ انتہائی غیرمحفوظ ہو گا، جب کہ بڑے پیمانے پر فراڈ اور بیرونی چھیڑ چھاڑ کی صورت میں پورا جمہوری نظام گر سکتا ہے۔


امریکا میں سن 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت کے بعد سائبر سکیورٹی سے متعلق کئی اہم تحقیقات میں الیکٹرونک ووٹنگ نظام کی خامیوں پر بات کی گئی۔ یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں قریب دو تہائی ریاستیں مختلف طرز کے آن لائن نظاموں ، مثلاﹰ ای میل کے ذریعے ووٹمنگ کی اجازت دیتی ہیں۔ سابقہ انتخابات میں ایک لاکھ سے زائد ووٹ آن لائن طریقے سے ڈالے گئے تھے۔

بتایا گیا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک خصوصی بلاک چین سسٹم کے تحت انکرپٹڈ ڈیٹا کی صورت میں امریکی فوجیوں کو بھی آئی فون کے ذریعے ووٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ انتہائی محفوظ نظام ہے۔ تاہم سائبر سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن ووٹنگ نظام میں سرور پینیٹریشن، صارف کی موبائل ڈیوائسز میں موجود مال وئیر سمیت کئی امور ووٹنگ کو غیرمحفوظ بنا سکتے ہیں۔

اس تجربے کے بعد کئی امریکی ریاستوں کی جانب سے دوبارہ پیپر بیلٹس کی جانب لوٹنا کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ آزمائشی بنیادوں پر تاہم خصوصی ایپلیکشن کے ذریعے آن لائن ووٹنگ کے کچھ پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ تاکہ مستقبل میں کوئی محفوظ طریقہ طے پائے۔
یہ بات اہم ہےکہ فن لینڈ میں بھی الیکٹرونک ووٹنگ کا آزمائشی بنیادوں پر استعمال سن 2008 میں شروع کیا گیا تھا، تا تاہم 2016 میں اس پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے روک دیا گیا۔

جرمنی میں سن 2005 میں اسے آزمائشی طور پر شروع کیا گیا تھا، تاہم جرمنی کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت نے سن 2009 میں الیکٹرونک ووٹنگ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ فرانس میں بھی سن 2017 میں عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔

ووٹنگ کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال

روایتی کاغذی بیلیٹ کے ذریعے ووٹنگ پر اعتبار کا عنصر اپنی جگہ مگر ایسا بھی نہیں کہ کوئی ملک ٹیکنالوجی کا استعمال ہی نہیں کر رہا۔

آسٹریلیا میں سن 2007 میں وفاقی انتخابات میں نابینا اور کم بینا افراد کے لیے الیکٹرونک ووٹنگ متعارف کروائی گئی تھی۔ ارجنٹائن میں بھی قومی انتخابات میں تو کاغذی بیلیٹ پر ہی بھروسا کیا جاتا ہے، تاہم میونسپلٹی کے انتخابات کے لیے جزوی طور پر الیکٹرونک ووٹنگ کی اجازت ہے۔ ایسٹونیا میں سن 2005 سے مقامی اور قومی انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ناروے میں بھی 2003 میں اسے آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا گیا۔ فلپائن میں سن 2010 میں الیکٹرونک ووٹنگ کی اجازت دی گئی، تاہم تکنیکی مسائل، شفافیت اور دوبارہ گنتی جیسے امور کی وجہ سے اس وقت اس پر نظرثانی جاری ہے۔ بھارت میں سن 2004 سے ووٹنگ کے عمل میں ٹیکنالوجی کی مدد لی جا رہی ہے۔