زرعی تحقیق پر کثیر وسائل مختص کئے بغیر ملک میں زرعی خودکفالت کی منزل کا حصول ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت زراعت کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کے لئے پرعزم ہے: سیکرٹری زراعت پنجاب ڈاکٹر اسد رحمان گیلانی

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے نہ صرف زرعی پیداواریت میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئیں

ہفتہ 28 نومبر 2020 17:08

زرعی تحقیق پر کثیر وسائل مختص کئے بغیر ملک میں زرعی خودکفالت کی منزل ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 نومبر2020ء) سیکرٹری زراعت پنجاب ڈاکٹر اسد رحمان گیلانی نے کہا ہے کہ زرعی تحقیق پر کثیر وسائل مختص کئے بغیر ملک میں زرعی خودکفالت کی منزل کا حصول ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت زراعت کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کے لئے پرعزم ہے۔ ان باتوں کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے دورہ کے دوران ڈینز، ڈائریکٹرز و زرعی ماہرین کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے نہ صرف زرعی پیداواریت میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئیں۔ ڈاکٹر اسد رحمان گیلانی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم زرعی تحقیقی اداروں کو تحقیق و ترقی کے لئے کثیر وسائل کے ساتھ ساتھ سہولیات مہیا کریں تاکہ زرعی خودکفالت کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔

(جاری ہے)



انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے زرعی مشینی انقلاب نہ لا سکنے کی وجہ سے ہم پوسٹ ہارویسٹ نقصانات میں بہت زیادہ زرعی پیداوار ضائع کر رہے ہیں جس پر قابو پانے کے لئے سائنسدانوں کو ہنگامی طور پر منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں جاری تحقیقی پیش رفت بہترین سمت میں جا رہی ہے جسے کسانوں کی دسترس تک پہنچانے کے لئے پنجاب کے محکمہ زراعت کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرنے کے حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات جن میں کرونا اور ٹڈی دل وغیرہ شامل ہیں ان کی وجہ سے نقدآور اجناس کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی 330 بلین ڈالرز سے کم ہو کر 280بلین ڈالرز ہو گئی ہے جو کہ سائنسدانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گندم کی گزشتہ فصل کے لئے 27.3ملین ٹن کا ہدف مقرر کیا تھا جو برداشت کے وقت شدید بارشوں کی وجہ سے کم ہو کر 25.50فیصد حاصل ہوئی۔

اس کمی پر قابو پانے کے لئے حکومت نے بروقت اقدامات کئے ورنہ یہ صورت حال بحرانی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل 14ملین گانٹھ سے کم ہو کر 7ملین گانٹھ تک کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملکی کاٹن انڈسٹری کے علاوہ بیرونی برآمدات کے شعبے میں بھی زبوں حالی دیکھنے کو ملی۔ انہوں نے کہا کہ سائنسدان ان مسائل پر قابو پانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کریں تاکہ ملکی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔

قبل ازیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ دنیا بھر میں صرف گندم کو بطور خوراک استعمال کرنے کا رجحان نہیں ہے لہٰذا اس میں مکئی اور دیگر اجناس اگر ایک تناسب کے ساتھ شامل کر لی جائیں تو اس سے نہ صرف غذائی کمی کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ بیرون ملک سے گندم درآمدکرنے پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے وژن 2025ء ترتیب دیا ہے جس میں مستقبل کی زراعت کے لئے روڈمیپ تجویز کیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹی نے زرعی پالیسی تشکیل دینے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے جسے آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں غیرملکی فنڈنگ اداروں کے ساتھ ساتھ ملکی فنڈنگ ایجنسیوں کے مختلف تحقیقی منصوبہ جات یونیورسٹی سائنسدانوں نے مقابلہ جاتی مہارت سے حاصل کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں یو ایس ایڈ کے تعاون سے سنٹرفار ایڈوانسڈ سٹڈیز برائے خوراک و زراعت قائم کیا گیا ہے جبکہ چین کے تعاون سے کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جا رہا ہے اور حکومت پنجاب نے یہاں ایک پنجاب بائیوانرجی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے جس سے تعلیم و تحقیق کے حوالے سے نئے امکانات پر کام جاری ہے۔

سیکرٹری زراعت پنجاب نے اجلاس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف سائل اینڈ انوائرمنٹل سائنسز، ڈیپارٹمنٹ آف انٹومالوجی، انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسز، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، فیکلٹی آف ایگریکلچرل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے زیراہتمام سولر پراجیکٹس کے علاوہ کسانوں کے لئے نئی مشینری کا معائنہ کرنے کے علاوہ سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز برائے خوراک و زراعت میں مختلف تحقیقی لیبارٹریوں اور منصوبہ جات میں جاری پیش رفت کا جائزہ لیا اور وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں اور ان کی ٹیم کی بھرپور تعریف کی۔

اس وزٹ کے کوارڈی نیٹر یونیورسٹی کے پرنسپل آفیسر پی آر پی پروفیسر ڈاکٹر محمد جلال عارف نے انٹومالوجی کے شعبہ میں تحقیقی لیبارٹریوں کے دورہ کے دوران پنک بول ورم(گلابی سنڈی) کی آف سیزن مینجمنٹ، پی بی روبز اور جنسی پھندے کے ذریعے اس کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ اس میں پیدا ہونے والی مدافعت کے نظام پر جاری تحقیقی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کپاس کی تیار فصل پر حملہ آور ہونے والی لشکری سنڈی کے حوالے سے ان تمام اقدامات کا احاطہ کیا جنہیں بروئے کار لا کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔