بین الاقوامی سطح پر پاکستان بھوک اور غذائی تحفظ میں 88 ویں نمبر پر آگیا

عالمی سطح پر 690 ملین افراد غذائی کمی کا شکار ہیں ‘حکومت غربت ‘بھوک اور غذائی تحفظ کے لیے اقدامات کررہی ہے. زرتاج گل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 3 دسمبر 2020 19:30

بین الاقوامی سطح پر پاکستان بھوک اور غذائی تحفظ میں 88 ویں نمبر پر آگیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 دسمبر ۔2020ء) 2020الائنس 2015 نے گلوبل ہنگر انڈیکس کے نتائج پاکستان میں شائع کیے جن کے مطابق107 ممالک میں پاکستان بھوک اور غذائی تحفظ میں 88 ویں نمبر پر ہے. اس سلسلے میں الائنس 2015 جو کہ 8 یورپین ممالک کا مشترکہ منصوبہ ہے نے اسلام آباد میں ویب سیمنار کا انعقاد کیا جس میں تمام ا سٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا اوراس بات پر توجہ دی کہ گورنمنٹ اور سائنسدان،سماجی اداروں کے ساتھ مل کر ایسے منصوبے مرتب کرے تاکہ پاکستان سے بھوک کو کم کیا جا سکے اور غذائی تحفظ کو ممکن بنایا جا سکے.

(جاری ہے)

پاکستان کو غذائی تحفظ اور نیوٹریشن کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے لوگوں میں غذائت کی بے حد کمی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے حکومت نے بہتر آب و ہوا کے لیے ایک ٹیکنالوجی سندھ اور جنوبی پنجاب میں متعارف کرائی ہے تاکہ تاکہ زراعت کی پیداوار کو فروغ دیا جا سکے. وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل نے آن لائن ویب سیمنارمیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا 88 نمبر پر آنا خوش آئند نہیں لیکن ہماری حکومت ملک سے غربت، بھوک اور غذائی تحفظ کے لیے مختلف ترجیحات پر کام کررہی ہے وزیر مملکت نے بتایا کہ ان کی وزارت کی تمام ترجیحات بھوک کے خاتمے اور غذائی تحفظ آپس میں مشترکہ ہیں اور جب تک بھوک اور غذائی تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکے گا، ماحولیاتی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی.

عابد قیوم سلہری، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ایس ڈی پی آئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہ الائنس 2015 کی 2020 گلوبل ہنگر انڈیکس پاکستان میں غذائت کے بحران کی وجہ سے انسانی اور معاشی ترقی متاثر ہوگی جس کہ وجہ سے ملکی سالمیت کو بھی خطرات پیش ہو سکتے ہیں رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ حکومت، پرائیوئٹ سیکٹر، سول سوسائٹی، عوام اور افراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگاتا کہ اس بحران سے بچا جا سکے.

جولین ہارنیس، یو این ریزیڈنٹ کو آرڈینیٹر اینڈ ہیومینیٹیرین آفیسر پاکستان نے کہا پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بھوک اور غذائی قلت انتہائی زیادہ ہے اور ان صوبوں میں بہتری لانے کے لیے لازمی ہے کہ گورنمنٹ، سائنسدانوں، سماجی اور مقامی ادراروں کے ساتھ مل کر جدید اور تکنیکی ترجیحات کو نافذ کر ے اور ایسی حکمت عملی مرتب کرے تاکہ مقامی لوگوں کی بھوک اور غذائی قلت کو کم کیا جا سکے اور ان کے معا شی حالات کو مستحکم کیا جا سکے.

ادھر سمینار میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فوری عمل کا وقت ہے اور ہر کسی کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران حکمت عملی میں موثر کردار ادا کرنا ہوگا کورونا کے با عث پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اورغذائی اجناس کی نقل و حمل نہ ہونے، اشیائی خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور لوگوں کے ذرائع آمدن میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی متاثر ہورہے ہیں.

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک کورونا کی وباءہے آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر17 ملین بچوں کو ہرسال ویکسین فراہم نہیں کی جا رہی ہے اور کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کی صحت کو زیادہ خطرات درپیش ہے. رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 690 ملین افراد غذائی کمی کا شکار ہیں 144 ملین بچے اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد کے ہیں 47 ملیں بچوں کو انتہائی کم غذا میسر ہے اور 2018 میں 5.3 ملین بچے اپنی سالگرہ سے پہلے فوت ہوگئے.

اگرچہ 2000 سے عالمی سطح پر بھوک میں کمی آئی ہے تاہم بہت سے جگہوں پر اس کی رفتار بہت سست ہے اور وہاں شدید غربت ہے ان ممالک میں غذا اور غذائت کا عدم تحفظ بڑھ رہا ہے رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ 2020 میں صحت، معیشت اور ماحول کا بھی بحران پیدا ہورہا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غذائی بحران اور بھوک سے تحفظ کے لیے ممالک حکومتوں اور افراد کو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی اور انہیں غذا، صحت اور معاشی نظام کو بہتر کرنا ہوگاتا کہ غذائی پیداواراور تقسیم کو منصفانہ انداز میں ترتیب دینا ہوگا تا کہ بحران سے بچا جا سکے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ37 فیصد پاکستان غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں.