بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تعزیتی قرار داد منظور کرلی

بدھ 7 جولائی 2021 00:42

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جولائی2021ء) بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رہنماء سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تعزیتی قرار داد منظور کرلی ، منگل کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 25منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی خدمات سے متعلق تعزیتی قرار داد پیش کرنے کی استدعا کی ایوان کی رائے سے ڈپٹی سپیکر نے انہیں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی بعدازاںنصراللہ زیرئے نے تعزیتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان ملک کے عظیم سیاسی رہنماء پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری و صوبائی صدر شہید عثمان خان کاکڑ کی المناک شہادت کے سانحے کی مذمت کرتے ہوئے شہید رہنماء کی بیالیس سالہ سیاسی ، جمہوری خدمات بالخصوص پشتونوں کے ساتھ ساتھ محکوم اقوام کے لئے بھرپور آواز بلند کرنے اور سینٹ میں موثر کردار ادا کرنے ، ملک میں قوموں کی برابری ، آئین وقانون کی بالادستی ، جمہور و جمہوری اداروں کے استحکام ، میڈیا و عدلیہ کی آزادی ، بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی ، پونم ، پی ڈی ایم اور پشتونخوا رہبرموومنٹ میں پرافتخار کردار ادا کرنے اور خاص طو رپر ملک کے ایوان بالا میں چھ سال کے دوران ملک کے محکوم عوام کے لئے مثالی کردار ادا کیا جس کی ملک کی پارلیمانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی یہ ایوان شہید عثمان خان کاکڑ کو ان کی سیاسی وجمہوری خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتا ہے ان کی شہادت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں ۔

(جاری ہے)

قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے عثمان خان کاکڑ کو ان کی سیاسی و جمہوری جدوجہد پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید عثمان کاکڑ نے زمانہ طالبعلمی سے ہی پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا پشتونخوا ایس او کے پہلے مرکزی سیکرٹری اول منتخب ہوئے پھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ، صوبائی صدر اور آخرمیں مرکزی سیکرٹری کے عہدے پر رہ کر بھرپور سیاسی جدوجہد کی انہوںنے ملک میں بحالی جمہوریت کی ہر تحریک میں فعال کردار ادا کیا ۔

جب وہ سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تو انہوںنے نہ صرف پشتون قوم بلکہ ملک کی تمام محکوم قوموں کی آواز بلند کی حیات بلوچ کی شہادت ، بلوچ مسنگ پرسنز ، ساہیوال واقعے سمیت سندھ کے مظلوم عوام اور فاٹا کے عوام کی آواز بنے خیبرپشتونخوا میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے لوگوں کے لئے آواز بلند کی علی وزیر کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور نقیب اللہ محسود کی شہادت پر آواز بلند کی وہ ایک حقیقی عوامی رہنماء تھے جو بلاشبہ اکیسویں صدی کے بڑے رہنمائوں میں شمار ہوںگے 16جون کو جب بلوچستان اسمبلی کے باہر اپوزیشن ارکان احتجاج کررہے تھے تو انہوںنے یہاں آکر خطاب کیا اگلے روز ان کو ان کے گھر میں سرپر کاری ضرب لگائی گئی ڈاکٹروں کے مطابق ان کو یہ ضرب لگائی گئی تھی دو دن تک کوئٹہ میں وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد انہیں کراچی منتقل کیاگیا جہاں اکیس جون کو وہ شہید ہوئے ان کی شہادت کے اعلان پر پورے ملک سمیت پوری دنیا میں جمہوری تحریکیں اور جمہوریت پسند عوام سوگوار ہوئے جب کراچی سے ان کی میت کوئٹہ کے لئے روانہ ہوئی تو حب سے کوئٹہ تک شہرشہرقریہ قریہ سیاسی جماعتوں اور عوام نے ان کاشاندار استقبال کیا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی نیشنل پارٹی جمعیت علماء اسلام سمیت ان تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کاشکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے ایک بڑے رہنماء کی میت کا تاریخی استقبال کیا 23جون کو جب کوئٹہ سے مسلم باغ کے لئے روانہ ہوئے تو کچلاک پہنچنے میں چار گھنٹے لگے اور بمشکل شام کو مسلم باغ پہنچے میڈیا کے مطابق عثمان کاکڑ کا جنازہ ملک کی تاریخ کا بڑا جنازہ تھا اس ایوان کے توسط سے ہم شہید رہنماء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ان کی موت کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کا قیام تو عمل میںلایاگیا ہے لیکن اکثر کمیشنوں کی رپورٹ سامنے نہیں آتیں ہمارا مطالبہ ہے کہ شہید عثمان خان کاکڑ کی شہادت کی تحقیقات سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن سے کرایا جائے پارٹی چیئر مین محمودخان اچکزئی نے واضح طو رپر کہا ہے کہ اگر کوئی حقیقی تحقیقاتی کمیٹی بنتی ہے تو اسے ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں ۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں تاہم انہی کے لوگوں کے کہنے پر صوبائی حکومت نے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے ہائیکورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن کے قیام کی استدعا کی تھی جس پر ہائیکورٹ کے دو معزز جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا ہے جس سے ہماری حکومت کی نیک نیتی واضح ہوتی ہے وزیراعلیٰ نے مسلم باغ جا کر سوگوار خاندان سے تعزیت کی ہم سب سوگوار خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں جہاں تک قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کے قیام کا مطالبہ ہے یہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہے صوبائی حکومت چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے استدعا کرسکتی تھی جو ہم نے کی اب جن کے پاس ثبوت ہیں وہ کمیشن کے پاس جائیں ہماری گزارش ہے کہ کمیشن پر اعتماد کیا جائے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ نصراللہ زیرئے نے اپنی پارٹی کی جانب سے قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کے قیام کی خواہش کااظہار کیا ہے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کے انتقال پر سب کو دکھ ہوا ہے تعزیتی قرار داد سے اتفاق کرتے ہیں انہوںنے کہا کہ یہ سب کا جمہوری حق ہے کہ وہ تحقیقات کی بات کریں معاملہ سب کے سامنے ہے عثمان خان کاکڑ کے واقعے کے بعد متنازعہ بیانات سامنے آئے یقینی طو رپر عثمان کاکڑ صوبے کے پشتون بیلٹ سمیت پورے صوبے کے بڑے لیڈر تھے ان کی موت پر سب غمزدہ ہیں ان کے اپنے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی موت کی تحقیقات ہوں ان کے پارٹی لیڈر نے بھی میڈیا میں آکر تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا صوبائی حکومت نے واقعے کے فوراً بعد عثمان خان کاکڑ کی کہیں بھی علاج کرانے کی پیشکش کی تھی انہی کے لوگوں کے کہنے پر بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن کے قیام کے لئے خط لکھا کمیشن کے قیام کے بعد جن کے پاس اگر ثبوت ہیں وہ کمیشن کے پاس جائیں ۔

جوڈیشل کمیشن کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کیا جائے کیونکہ عثمان کاکڑ کی موت سے عوام خصوصاً کاکڑ قوم میں اشتعال پایا جاتا ہے لیکن نصراللہ زیرئے کی جانب سے صرف ایک شخص کو نامزد کرکے ان سے انصاف کی امید کرنا سوالیہ نشان ہے انہیں جوڈیشل کمیشن پر اعتماد کرنا چاہئے ۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 10مارچ2021ء کو سینٹ میں اپنے الوداعی خطاب میں شہید عثمان خان کاکڑ نے چیئر مین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میںنے چھ سال تک یہاں اپنے عوام کی بات کی آج پہلی بار اپنے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں مجھے اشارے اورپیغامات مل رہے ہیں کہ میں اپنے بیانیے سے ہٹ جائوں شہید عثمان خان کاکڑ نے اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ مجھے کچھ بھی ہوجائے اس کی پرواہ نہیں لیکن اگر شہید کیا گیا تو اسے گم کھاتے میں نہ ڈالا جائے انہون نے کہا کہ شہید عثمان کاکڑنے اپنے آخری خطاب میں سینٹ میں واضح طو رپر دو اداروں کے نام بھی لئے تھے جس پر صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ نصراللہ زیرئے نے عثمان خان کاکڑ کے سینٹ کے اجلاس سے الوداعی خطاب کا تو ذکر کیا مگر ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی اختلافات چل رہے تھے ابھی وہ بات کررہے تھے کہ نصراللہ زیرئے و دیگر اپوزیشن اراکین نے بھی بولنا شروع کردیا اس موقع پر نور محمد دمڑ اور نصراللہ زیرئے میں تندو تیز جملوں کا تبادلہ ہوا نور محمد دمڑ نے کہا کہ کسی کے خون پر سیاست نہ کی جائے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ ایوان میں مذمتی قرار داد پیش ہوئی ہے اس پر موذونیت پر بات ہونے کے ساتھ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے بھی بات کرلی لہٰذا مزید بحث کی بجائے قرار داد منظورکی جائے جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ جب کوئی قرار داد پیش کی جاتی ہے تو یہ ایوان کی پراپرٹی بن جاتی ہے جس پر سب بات کرسکتے ہیں جس پر ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومتی ارکان قرار داد کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں عثمان کاکڑ بہت بڑے سیاسی لیڈر تھے وہ شہید ہوئے ہیں لہٰذا مذمتی قرار داد منظور کی جائے صوبائی وزیر میرظہور بلیدی نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ پورے صوبے کے لیڈر تھے زمانہ طالبعلمی سے اپنی موت تک بھرپور سیاسی کردار ادا کیا وہ تمام اقوام کے لئے انتہائی قابل قدر تھے صوبائی حکومت نے پہلے دن ان کے علاج کی پیش کش کی حکومتی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے ان کے خاندان کے قریب رہ کر موثر کردار ادا کیا عثمان خان کاکڑ کے خاندان اور پارٹی کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پرصوبائی حکومت نے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے واقعے کی تحقیقات کرانے کی استدعا کی ہم بھی چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہوں اور حقائق سامنے آئیں ہم قانون کے پابند ہیں اور قانون کے تحت صوبائی حکومت بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقات کے لئے استدعا کرسکتی ہے قانون کے تحت ہم سپریم کورٹ کو نہیں لکھ سکتے ۔

پارلیمانی سیکرٹری مبین خان خلجی نے عثمان خان کاکڑ کی بلوچستان کے عوام کے لئے سیاسی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کا یہ ثبوت ہے کہ ان کی میت کا پورے صوبے میں بھرپور استقبال کیا گیا مگر میڈیا نے ان کی تدفین کو کوریج نہیں دی جو انتہائی افسوسناک ہے انہوںنے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کے انتقال کے بعد آج یہاں جو جماعتیں باتیں کررہی ہیں وہ بتائیں کہ سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں انہوںنے عثمان خان کاکڑ کے ساتھ کیا کیا اپوزیشن جماعتوں نے عثمان خان کاکڑ کو سینٹ کے انتخابات میں ووٹ نہ دے کر کیا ان سے دھوکہ نہیں کیا اس موقع پر ایک بار پھر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تندو تیز جملوں کا تبادلہ ہونے لگا ۔

صوبائی وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ نے اپنی بھرپور سیاسی زندگی میں اپنے عوام کی نمائندگی کا حق بھرپور انداز میں ادا کیا ۔وہ سینٹ میں پورے صوبے کی موثر آواز تھے سینٹ میں اپنے صوبے اور یہاں کے عوام کے لئے جو خدمات سرانجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں صوبائی حکومت عثمان خان کاکڑ کے لواحقین سے روز اول سے رابطے میں رہی ان کو عثمان خان کاکڑ کا علاج ملک و بیرون ملک کہیں بھی کرانے کی پیشکش کی سی ایم ایچ میں بھی ان کے علاج کے تمام انتظامات کئے گئے تھے تاہم عثمان خان کاکڑ کو مزید علاج کے لئے کراچی منتقل کیاگیا ہم مطمئن ہیں کہ صوبائی حکومت نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں عثمان خان کاکڑ کی پارٹی کی جانب سے ایک اخباری بیان میں جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے پر بھی صوبائی حکومت نے عملدرآمد کیا کہیں بھی اور کسی بھی سطح پر تحقیقات کے لئے ہم تیار ہیں۔

قوانین کے مطابق جہاں سے بھی تحقیقات ہوسکتی ہیں ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں امید ہے کہ عدالتی کمیشن سے بھرپور تعاون کیا جائے گابعدازاں ایوان نے تعزیتی قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔