’بیلاروس کی ایتھلیٹ کو سیاسی پناہ دینا اعزاز کی بات ہو گی‘

DW ڈی ڈبلیو پیر 2 اگست 2021 14:20

’بیلاروس کی ایتھلیٹ کو سیاسی پناہ دینا اعزاز کی بات ہو گی‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2021ء) اتوار کے دن ٹوکیو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس وقت ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا، جب تیز دوڑ کے مقابلوں کی ماہر بیلاروس کی کرسٹینا سوانوسکایا نے جہاز میں بیٹھے سے انکار کر دیا۔ انہیں مبینہ طور پر واپس منسک روانہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

کرسٹینا نے الزام عائد کیا ہے کہ کوچنگ عملے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں ملک واپس بھجوانے کی کوشش کی گئی تاہم جاپانی پولیس کی مدد انہوں نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

منسک حکومت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

کرسٹینا کو مدد فراہم کرنے والے انسانی حقوق کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ اب اگر کرسٹینا کو واپس بیلاروس بھیجا گیا تو ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ نوجوان ایتھلیٹ ٹوکیو میں آسڑیا کے سفارتخانے کی مدد سے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

کرسٹینا نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈلز پر جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انہیں اپنی قومی ٹیم کے کوچز کی طرف سے دباؤ کا سامنا تھا، اس لیے انہوں نے اولمپک کمیٹی سے مدد کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ بیلارس کی ٹیم انہیں ان کی مرضی کے برخلاف واپس بھجوانا چاہتی تھی۔

کرسٹینا نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر اپنی ٹیم کی منیجمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا تھا کہ انہیں 4x400 کی ریلے ریس میں حصہ لینے کو کہا گیا حالانکہ انہوں نے اس فارمیٹ میں کبھی حصہ نہیں لیا ہے۔

کرسٹینا کے اس بیان کے بعد مبینہ طور پر انہیں اولمپک مقابلوں سے شرکت سے روکنے کی خاطر واپس بلوانے کی کوشش کی گئی۔

بیلاروس کی اولمپک کمیٹی گزشتہ پچیس برسوں مطلق العنان صدر الیگزینڈ لوکا شینکو اور ان کے بیٹے وکٹور کی سرپرستی میں ہے۔ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ کھلاڑیوں کو تنقید سے روکنے کی خاطر منسک حکومت انہیں دباؤ کا نشانہ بھی بناتی ہے۔

کرسٹینا کی طرف سے یورپ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست کے بعد یورپی امور کے فرانسیسی وزیر نے پیر کے دن کہا کہ اگر یورپ کرسٹینا کو سیاسی پناہ فراہم کرتا ہے تو یہ ایک اعزاز کی بات ہو گی۔

ٹوکیو میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے کہا ہے کہ کرسٹینا 'محفوظ‘ ہیں اور انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔ کرسٹینا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ اتوار کو جاپانی پولیس نے مداخلت کی اور انہیں وطن واپس روانہ ہونے سے بچا لیا گیا جبکہ پیر کی صبح وہ ٹوکیو کے ایک پولیس اسٹیشن میں تھیں۔

ع ب / ج ا (اے پی، روئٹرز)

متعلقہ عنوان :