زبیر موتی والا نے ٹیکس دائرہ کار میں توسیع کے نئے آرڈیننس پر شدید تحفظات کا اظہار

آرڈیننس نے بنیادی طور پر انڈر فائلرز کی وجہ سے سب کو خوف زدہ کررکھا ہے،چیئرمین بی ایم جی

پیر 20 ستمبر 2021 22:53

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہترین۔ 20 ستمبر2021ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے سابق صدر اور چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے ٹیکس دائرہ کار میں توسیع کے نئے آرڈیننس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جس میں ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے نام پرنئے اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو شوکت ترین سے بی ایم جی اور کے سی سی آئی قیادت کے ہمراہ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہا کہ اس آرڈیننس نے بنیادی طور پر انڈر فائلرز کی وجہ سے سب کو خوف زدہ کیا ہوا ہے جو ہر ایک کے ذہن میں زیرگردش ہے اور اس آرڈیننس کے انڈر فائلر کو خارج کیا جائے۔

یہ بہت ناانصافی ہے کہ فائلرز کی حوصلہ افزاکرنے اور ان کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرنے اور نان فائلرز کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے یہ آرڈیننس موجودہ فائلرز کو بھی انڈر فائلرز کے طور پر شمارکرکے نشانہ بناتا ہے جو ہراساں کرنے اور بدعنوانی کے مزید راستے کھولے گا۔

(جاری ہے)

اس لیے انڈر فائلر کو آرڈیننس سے نکالنا ہوگا۔ انہوں نے ہر ایک کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک سے حاصل ہونے والی کوئی بھی آمدنی جو حکومت کے مقرر کردہ معیار سے تجاوز کرتی ہے وہ ٹیکس کے زمرے آنی چاہیے چاہے وہ زراعت، صنعت ہو یا تجارت۔

انہوں نے کہاکہ ہم محب وطن شہری ہیں اور ہم پاکستان کا ترقی کرتا اور ٹیکس وصولی کو زیادہ سے زیادہ سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ترقی پورے ملک میں ہو۔ تمام اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں واقعی کم از کم 12000 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کی ضرورت ہے لیکن اس مقصد کے لیے آپ کو ہر جگہ ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے یہ دیکھنا ہو گا کہ فنڈز کہاں سے غائب ہو رہے ہیں یہ آرڈیننس افراد کے ٹیکس نیٹ میں ہونے کی وجہ سے شکار کا ذریعہ تصور کیا جارہا ہے کیونکہ فائلرز کی تمام تفصیلات ایف بی آر کے پاس موجود ہیں ۔

وہ نان فائلرز کے خلاف کارروائی کے بجائے فائلرز کے خلاف کارروائی کرکے سب سے آسان طریقہ اختیار کریں گے۔اس طرح کے قوانین وضع کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جانی چاہیے۔زبیر موتی والا نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ڈی ایل ٹی ایل میں توسیع نہیں کی گئی کیونکہ یکم جولائی 2021 سے کوئی توسیع کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور برآمد کنندگان کو بالکل اندازہ نہیں ہے کہ ڈی ایل ٹی ایل وہاں ہے یا نہیں۔

اگرچہ 32 ارب روپے مالیت کی ڈی ایل ٹی ایل کلیمز ایف بی آر نے کلیئر کر دیے ہیں اور اسٹیٹ بینک کو بھیجے ہیں لیکن رقم جاری نہیں کی گئی۔ انہوں نے کراچی کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نی1100ارب روپے کے پرجوش کراچی ٹرانسفارمیشن پلان ( کے ٹی پی) کا اعلان کیا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ان فنڈز کے ثمرات کب نظر آئیں گے اور اب تک کیا پیش رفت ہوئی۔

تاجر برادری کے نمائندے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ صنعتی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی کہاں ضرورت کہاں ہے لیکن ٹرانسفارمیشن پلان میں ان سے مشاورت نہیں کی جا رہی۔کے فور منصوبے کا ڈیزائن جو کراچی کی لائف لائن ہے 11 بار تبدیل کیا گیا جس کے نتیجے میں اس منصوبے کی لاگت 22 ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے سے تجاوز گئی جو کہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اگرچہ ورلڈ بینک کے ’’ڈوئنگ بزنس انڈیکس‘‘ میں پاکستان کی رینکنگ 108 ویں نمبر پر آگئی ہے لیکن یہ اب بھی بہت زیادہ تھا کیونکہ تاجر برادری کو یکساں کاروباری مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔

پاکستان میں ہمارے پاس برابری کی بنیاد پر کاروباری مواقع دستیاب نہیں کیونکہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں کاروبار کرنے کی لاگت کے مقابلے میں کراچی کی کاروباری لاگت انتہائی زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے آر ایل این جی کو6.5ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور بجلی 9 سینٹ فی یونٹ پر 5 زیرو ریٹڈ سیکٹرکو دی ہے لیکن کراچی میں صنعتوں کوآر ایل این جی کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا۔

جنہوں نے ڈھائی ماہ کے وقفے کے بعد حال ہی میں 9 سینٹ پر بجلی وصول کرنا شروع کی۔انہوں نے افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت کی اجازت دینے پر وزیر خزانہ کے اقدامات کو سراہتے ہوئے وزیر خزانہ کو آگاہ کیا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے متعلقہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا اور افغانستان کے ساتھ تجارت 60 فیصد کم ہو گئی ہے۔صدر کے سی سی آئی شارق وہرہ نے وزیر خزانہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی حکمت عملی کو سراہا جس نے معیشت کو 4.8 فیصد جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ مستحکم کیا جبکہ برآمدات میں مستقل اضافہ دیکھا جارہاہے اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے جو نہ صرف حکومت بلکہ نجی شعبے کے لیے بھی اطمینان بخش صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

انہوں نے کے سی سی آئی کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ برآمدات بمقابلہ درآمدات میں ہمیشہ ایک مماثلت رہی ہے کیونکہ برآمدات 22 سے 25 ارب ڈالر کے درمیان مستحکم ہے اور درآمدات بڑھتی رہتی ہیں۔روپے کی قدر میں کمی نہ تو برآمدات اور نہ ہی کاروبار ومعیشت کوسہارا دے رہی ہے۔جسے تب ہی بچایا جا سکتا ہے جب حکومت ملک کے کم صنعتی بنیادکو بڑھانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرے اور ماحول بھی سازگار بنائے جس میں صنعتی یونٹس اضافی پیداوار حاصل کرسکیں۔