دہشت گردی کے واقعات اور نیوزی لینڈ کے کمزور قوانین

DW ڈی ڈبلیو منگل 21 ستمبر 2021 13:20

دہشت گردی کے واقعات اور نیوزی لینڈ کے کمزور قوانین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2021ء) سپر مارکیٹ میں حملہ شروع ہونے کے ساٹھ سیکنڈ کے اندر ہی پولیس نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور اسی سال جولائی میں ضمانت پر رہا تھا اور اسپیشل پولیس اہلکاروں کی مسلسل نگرانی آپریشن کی وجہ سے قریب موجود سادہ لباس میں اہلکار فوری طور پر حملہ آور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔

سری لنکا میں پیدا ہونے والے احمد آتھل محمد شمس الدین پہلی بار اکتوبر دو ہزار گیارہ میں پناہ گزین کے طور پر نیوزی لینڈ آیا۔ شمس الدین تامل مسلمان تھا اور دو ہزار تیرہ میں اسے مہاجر کا درجہ دیا گیا۔ وہ داعش سے متاثر سوشل میڈیا کے اثرات کے ذریعے اپنے ہی کمرے میں بنیاد پرست ہونے کے لیے بہترین امیدوار تھا۔ حکام اس کی پناہ گزین کی حیثیت کو منسوخ کرنے اور اسے دو ہزار اٹھارہ سے ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

شمس الدین سب سے پہلے مارچ دو ہزار سولہ میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ سے متعلقہ مواد کی سوشل میڈیا پر پوسٹ اور آن لائن رسائی پر حکام کی توجہ میں آیا تھا۔ اس طرح کچھ الزامات کے تحت اسے سزا بھی ہوئی تھی۔

شام میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل ہونے کے شبے میں روانگی کے وقت مئی دو ہزار سترہ میں اسے آکلینڈ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حراست میں لیا گیا تھا۔

زیر حراست شمس الدین کی ضمانت ایک سال سے زائد عرصے تک مسترد کی گئی اور بالآخر محدود مواد تقسیم کرنے کے الزام میں مجرم تسلیم کیا گیا۔ اس وجہ سے کہ شمس الدین پہلے ہی کچھ وقت حراست میں گزار چکا تھا، اسے ہائی کورٹ کے جج نے دو ہار اٹھارہ میں کڑی نگرانی کی سزا سنائی تھی۔ حکام اس کے معاشرے کے لیے جاری خطرے سے آگاہ تھے۔ جیل سے نکلنے کے بعد سے وہ پولیس کی مسلسل نگرانی میں رہا، اسی وجہ سے پولیس حملہ آور کو ہلاک کرنے میں فوری کامیاب ہوئی۔

نیوزی لینڈ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے بلکہ ساتھ ہی حکام بالا کے لیے معاشرے میں پنہاں سماجی عدم برداشت اور نسلی تعصب کی طرف بھی توجہ کا طلب گار رہے۔ معاشرے میں خاموشی سے پنپتے نسلی تعصب کی ایک بہت بڑی وجہ انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کی قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں، جو سماجی اور معاشرتی انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

موجودہ حالات میں قانونی ردِعمل کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نیوزی لینڈ کے انسداد دہشت گردی کے قانون کے اوراق پلٹیں۔

سن 1840ء سے 1860ء میں نیوزی لینڈ میں مقامی قبائل اور نوآبادیاتی حکومتی طاقتوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران مارشل لاء کا نفاذ تھا، جو تقریباً بیس تک رہا۔ سن 1881ء میں حکومتی طاقتوں نے ویسٹ کوسٹ کے علاقے پاری ہاکہ میں ہونیوالی کارروائی میں مقامی ماؤری قبائل میں پریزرویشن ایکٹ کے تحت لامحدود بنیادوں پر بغیر کسی ثانوی کارروائی کے قید کرنے کی اجازت دی گئی، جو اپنے لحاظ سے ایک منفرد اور سخت قسم کا قانون تھا۔

ان قوانین کے بے دریغ استعمال کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ 1932ء میں آکلینڈ میں بے روزگاری کے خلاف ہونیوالے احتجاج کے سدباب کے لئے ایک پبلک سیفٹی ایکٹ پاس کیا گیا، جس کی بنیاد پر حکومتِ وقت کو ہر قسم کے اختیارات دے دیے گئے۔ اسی ایکٹ کی ایک کڑی کے طور پر 1987ء میں انٹرنیشنل ٹیررازم ایکٹ پاس کیا گیا، جس کے تحت اگر کوئی شخص نیوزی لینڈ میں کسی قسم کی ہنگامی صورتحال پیدا کرتا ہے تو وزیراعظم ملک میں ہنگامی صورتحال کا نفاذ کر سکتا ہے۔

اس قسم کی ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو زخمی کرنا، مارنا یا املاک کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ اس قانون کے متعلق کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق قانون نہ صرف مبہم ہے بلکہ اس کے در پردہ حکامِ بالا کو کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔

یہ قانون ابھی بھی بغیر کسی ردوبدل کے موجود ہے ۔ گیارہ ستمبر کو نیویارک میں ہونیوالے حملوں نے، جہاں ساری دنیا میں اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر دوڑا دی، وہیں نیوزی لینڈ میں انسداد دہشت گردی کے قانون میں حکومتی اختیارات کو لامحدود حد تک وسیع کر دیا گیا۔

اس ایکٹ کے مطابق کسی بھی شہری کی کسی بھی قسم کی دہشت گرد تنظیم میں شمولیت غیر قانونی قرار دی گئی اور وزیراعظم کسی بھی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے سکتا تھا۔ ایک بار پھر قانونی طورپر بل میں موجود ابہام بہت سے سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہا۔

آکلینڈ سپر مارکیٹ کے حالیہ واقعے نے ملک بھر میں انسداد دہشت گردی کے قانون پر کئی سوالات کھڑے کئے ہیں۔

پندرہ مارچ 2019ء کو مساجد پر ہونیوالے نیوزی لینڈ کی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے اور اس تازہ واقعے کا موازنہ کسی بھی صورت ممکن نہیں، تاہم دونوں واقعات میں ''نفرت‘‘ ایک قدر مشترک تھی، جس کی بنیاد پر انتہائی قدم اٹھایا گیا۔

اس کیس نے نیوزی لینڈ کی انسداد دہشت گردی کے اختیارات میں خامیوں کو واضح کیا ہے، جو پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی عوام کو پرتشدد انتہا پسندوں سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے۔

پچھلی حکومتوں کی ناکامی کے بعد موجودہ لیبر حکومت نے انسداد دہشت گردی کے نئے اختیارات تجویز کیے ہیں۔

وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے حملہ کے بعد میڈیا کو بتایا، ''ہم لوگوں کو اس فرد سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے پاس دستیاب ہر قانونی اور نگرانی کی طاقت استعمال کر چکے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم کا یہ بیان قانونی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے، جس کی بنا پر حملہ نہ روکا جا سکا۔

اس وقت انسداد دہشت گردی کا بل پندرہ مارچ کے واقعے کے تناظر میں ہونیوالی رائل کمیشن انکوائری کی سفارشات کے طور پر پارلیمان میں زیر بحث ہے۔ ان سفارشات کے تحت تین شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئیں ہیں ۔سپریشن ایکٹ، سرچ اینڈ سرویلنس ایکٹ اور کنٹرول آرڈرز۔ بل کی منظوری کی صورت میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کو ایک جرم قرار دیا جائے گا۔

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بل میں تبدیلی کی سفارشات مسلمان برادری کی طرف سے پندرہ مارچ کے واقعے کے بعد کی گئیں جبکہ ٹیررازم سپریشن ایکٹ میں شناخت کو نہ چھپانے کا حکم بھی شمس الدین کے خلاف دیا گیا، جس کی مذہبی وابستگی اسلام سے تھی۔

دوسری طرف نیوزی لینڈ کی مسلم برادری، جو پہلے سے ہی نسلی تعصب کا شکار ہے اور یہ تازہ واقعہ اسے بڑھانے کا سبب بنے گا۔

لیبر حکومت نفرت انگیز تقریر کو کرائم ایکٹ جرم بنانا چاہتی ہے اور نفرت پھیلانے یا امتیازی سلوک پر سزاؤں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ چھ مجوزہ تبدیلیوں میں جنس، جینڈر، ازدواجی حیثیت یا سیاسی رائے کی بنیاد پر گروہوں کو نفرت انگیز تقریر سے بچانا اور قانون کے خلاف ''امتیازی سلوک پر اکسانا‘‘ شامل ہیں۔ اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا کو تین ماہ سے بڑھا کر تین سال کی قید کی بھی تجویز شامل ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ان قوانین میں جلد تبدیلی سے نیوزی لینڈ کے معاشرے میں پنہاں سماجی عدم برداشت اور نسلی تعصب میں کمی ہو گی۔