Live Updates

پاکستان سیلاب: ہزار سے زیادہ ہلاکتیں، 25 لاکھ افراد بے گھر

یو این جمعرات 18 ستمبر 2025 00:00

پاکستان سیلاب: ہزار سے زیادہ ہلاکتیں، 25 لاکھ افراد بے گھر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کی ضرورت ہے جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں، اہم فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور بدحال لوگوں کی زندگی تباہی کے دھانے پر ہے۔

جون کے اواخر سے شروع ہونے والی مون سون کی غیرمعمولی شدید بارشوں سے آنے والے اچانک سیلاب اور پہاڑی تودے گرنے کے واقعات میں 1,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایک چوتھائی تعداد بچوں کی ہے۔

Tweet URL

اس آفت سے اب تک مجموعی طور پر 60 لاکھ سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں بے گھر ہونے والے 25 لاکھ لوگ سرکاری پناہ گاہوں میں یا اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہیں جن کے وسائل پر پہلے ہی بہت بڑا بوجھ ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر (اوچا) کے نمائندے کارلوس گیہا نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے بہت سے لوگ تاحال اپنے علاقوں میں واپس نہیں آ سکے جبکہ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے گھر اور کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔

لاکھوں زندگیاں متاثر

صوبہ پنجاب کے دریاؤں میں آںے والے سیلاب نے مون سون کی شدید بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب میں سیلاب کے نتیجے میں بہت سے علاقے زیرآب آ گئے ہیں۔ زرعی اعتبار سے پنجاب ملک کا اہم ترین صوبہ ہے جہاں انڈیا کی جانب سے ان دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے سے 47 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں سیلاب سے 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ گلگت بلتستان کے کئی علاقے گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے اچانک سیلاب کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں اور کئی وادیاں دیگر علاقوں سے مکمل طور پر کٹ گئی ہیں۔

صوبہ سندھ میں بھی بہت بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرے کے پیش نطر ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

کارلوس گیہا نے کہا ہے کہ سیلاب سے قبل حکومت نے 25 لاکھ افراد کی محفوظ علاقوں میں منتقلی کے لیے بہت عمدہ کام کیا جو 2022 میں نہیں دیکھا گیا تھا۔

لیکن جب پانی کی سطح 25 فٹ تک پہنچ جائے اور یہ پورے کے پورے دیہات نگل لے تو پھر حفاظتی اقدامات کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔

© UNICEF/Fahad Ahmed
پاکستان کے سب سے گنجان آبادی والے صوبہ پنجاب کے سیلاب کی وجہ سے زیر آب آئے علاقے میں ایک سات سالہ بچہ محفوظ مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

زراعت اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی

قدرتی آفات سے بچاؤ کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق، حالیہ سیلاب میں کم از کم 8,400 سے زیادہ مکانات، 239 پُلوں اور تقریباً 700 کلومیٹر سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

22 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی اراضی زیر آب آچکی ہے جس کا بڑا حصہ پنجاب میں واقع ہے۔ ایسے علاقوں میں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ستمبر کے پہلے ہفتے میں صرف گندم کے آٹے کی قیمتیں ہی 25 فیصد بڑھ گئی تھیں۔

کارلوس گیہا کا کہنا ہے کہ یہ وہ کسان خاندان ہیں جو پورے ملک کو خوراک مہیا کرتے ہیں۔ اب ان کی زمین زیرآب ہے، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔

امدادی کارروائیوں پر بوجھ

اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار اس تباہی کی شدت کے مطابق امداد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اقوام متحدہ کے مرکزی ہنگامی امدادی فنڈ (سی ای آر ایف) سے 50 لاکھ ڈالر جاری کیے گئے ہیں، جب کہ اضافی 15 لاکھ ڈالر مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو فراہم کیے گئے ہیں۔

یونیسف، عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور دیگر ادارے صاف پانی کی ترسیل، صحت و غذائیت کی فراہمی اور بچوں کے لیے عارضی تعلیمی مراکز قائم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

تاہم، امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ناکافی ہے۔

ٹوٹے پلوں اور زیرآب سڑکوں کی وجہ سے کئی علاقے اب بھی ناقابل رسائی ہیں جہاں خوراک اور ادویات صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی پہنچائی جا سکتی ہیں۔

سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا اور ڈینگی سمیت پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، اور آئندہ ہفتوں میں ہیضہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔

کارلوس گیہا کا کہنا ہے کہ خوراک، صحت کی سہولیات، پناہ کا سامان، صاف پانی اور صحت و صفائی کا انتظام لوگوں کی بنیادی ضرورت ہیں۔

تاہم، اس کے بعد سیلاب متاثرین کو بحالی میں مدد دینا ہو گی جو اس سے کہیں بڑا اور مشکل کام ہو گا۔

© UNICEF/Fahad Ahmed
یونیسف کا عملہ سیلاب سے بری طرح متاثرہ ضلع جھنگ میں ضروری امدادی سامان تقسیم کر رہا ہے۔

پاکستان کے ساتھ یکجہتی کی ضرورت

پاکستان نے حالیہ برسوں میں 2022 کے ریکارڈ توڑ سیلاب سے لے کر شدید گرمی کی لہروں اور خشک سالی تک ایک کے بعد ایک موسمیاتی آفت کا سامنا کیا ہے اور ہر نیا دھچکا پہلے سے کمزور خاندانوں کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔

کارلوس گیہا کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جبکہ یہ مسئلہ پیدا کرنے میں ان کا بہت کم کردار ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ صرف اس ہنگامی صورتحال میں ہی نہیں بلکہ طویل المدتی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو اور اسے بحالی و خود انحصاری میں مدد دے۔

Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات