افغانستان سے متعلق اجلاس،  بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 18 اکتوبر 2021 16:00

 افغانستان سے متعلق اجلاس،  بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2021ء) بھارتی ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ادارے گزشتہ چند روز سے حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں دیتے رہے ہیں کہ نئی دہلی کو افغانستان کی سکیورٹی صورت حال سے کافی خدشات لاحق ہیں اس لیے وہ بھی افغانستان کے حوالے سے ایک اعلی سطحی کانفرنس کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

پیر 18 اکتوبر کو بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ خبر بھی شائع کر دی کہ متعلقہ ممالک کو دعوت نامے بھی بھیجے جا چکے ہیں۔

اخبار کے مطابق یہ کانفرنس اگلے مہینے ہونی ہے جس کے لیے بھارت نے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کو بھی دہلی آنے کی دعوت دی ہے۔

کن ممالک کو دعوت دی گئی ہے؟

بھارت کا ارادہ ہے کہ آئندہ ماہ دوسرے ہفتے میں اس کانفرنس کو منعقد کیا جائے اور اس کے لیے دس اور گیارہ نومبر کی تاریخ بھی مقرر کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

ایک بھارتی نیوز ایجنسی کے مطابق کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان، ایران، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو مدعو کیا گیا ہے۔

تاہم حکام کی جانب سے ابھی تک نہ تو اس کی تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید۔

بعض اطلاعات کے مطابق امریکا، جرمنی فرانس اور یورپی یونین کے بعض دیگر ممالک کو بھی شامل ہونے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ ان ممالک کے نمائندوں سمیت اقوام متحدہ کا بھی کوئی مندوب اس میٹنگ میں حصہ لے سکتا ہے۔

تاہم بھارتی حکومت کا طالبان، جن سے متعلق اس میں بات ہونی ہے، کو اس میں شامل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

بھارتی حکومت نے بھی دیگر ممالک کی طرح ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

کیا پاکستان کی شرکت ممکن ہے؟

بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ چند برسوں سے تعلقات کشیدہ ہیں اور حال یہ ہے کہ فی الوقت دونوں میں پوری طرح سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہیں ہیں۔ اس صورت میں اگر پاکستان بھارت کی اس دعوت کو قبول کرتا ہے اور معید یوسف نئی دہلی کا دورہ کرتے ہیں تو پاکستان کی جانب سے حالیہ چند برسوں میں بھارت کا یہ ایک اعلی سطحی دورہ ہو سکتا ہے۔

لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کا رد عمل کیا ہو گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اب تک پاکستان کی پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ کسی ایسی میٹنگ میں شامل ہونے کا قائل نہیں جس میں طالبان کا کوئی نمائندہ شامل نہ ہو۔ اس نظریے سے دیکھا جائے تو شاید پاکستان کی شمولیت مشکل ہو گی۔

لیکن ابھی تک اسلام آباد کی جانب سے نئی دہلی کے دعوت نامے یا پھر اس میں شمولیت کے حوالے سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

کانفرنس کا مقصد کیا ہے؟

طالبان کی آمد کے بعد سے ہی بھارت افغانستان کے حوالے سے الگ تھلگ سا پڑ گیا ہے اور اب اس کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح وہ بھی افغانستان پر ہونے والی بات چیت میں اپنی ایک نشست مخصوص کر لے۔

اس بارے میں اخبار 'دی انڈیئن ایکسپریس' نے ایک اعلی حکومتی افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارت کو شدید قسم کے سکیورٹی خطرات کا خدشہ لاحق ہے اور وہ کسی بھی حال میں اس سے تحفظ کا خواہاں ہے۔

"جب آپ میز پر نہیں ہوتے تو آپ مینو میں ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ یہ کانفرنس میز کو ترتیب سے لگانے، میز پر رہنے اور اس کے ایجنڈے کا فیصلہ کرنے کی بھارتی کوشش ہے۔"

نئی دہلی کے سینیئر صحافی اور عالمی امور کی ایک میگزین کے مدیر سنجے کپور بھی اس سے متفق ہیں اور کہتے کہ بھارت جانتا ہے کہ وہ، "اس معاملے پر الگ تھلگ پڑ چکا ہے اور چاہتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی بھی اپنی کچھ حیثیت برقرار رہے۔

"

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، "جن کو دعوت دی گئی ہے اس میں بیشتر 'شنگھائی کوآپریشن تنظیم' کے ارکان ہیں۔ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہے کیونکہ وہاں تشدد میں کافی اضافہ ہو رہا ہے اور دوسرا انسانی حقوق اور امداد کا مسئلہ ہے۔ تو اگر آپ کچھ کریں گے نہیں تو آپ کی حیثیت کیسے بڑھے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میٹنگ سے کچھ نیا نکل سکتا ہے۔

"

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت اس معاملے میں ایک طرح سے تنہا ہو چکا ہے اور اگر اب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر، "اس کی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی۔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو کچھ زیادہ ہی فکر ہے اور حکومت کو معلوم ہے کہ وہاں افغانستان کی وجہ سے تشدد میں کافی اضافے کا امکان ہے۔"

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے لوگ اس بات سے متفق نہیں کہ کشمیر میں بڑھتے تشدد کی وجہ افغانستان کی صورت حال ہے اور، "میری نظر میں بھی اس کے علاوہ اس کی کئی اور بھی مختلف وجوہات ہیں۔

"

روس نے افغانستان کی صورت حال پر پہلے ہی سے ماسکو میں بیس اکتوبر کو ایک کانفرنس کا اعلان کر رکھا ہے، جس میں بھارت کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس میٹنگ میں طالبان کے نمائندے بھی شامل ہوں گے اور امکان ہے کہ اس دوران بھارت کو بھی طالبان سے روبرو ہونے کا موقع ملے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں روس سے دعوت ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس ماسکو کی میٹنگ میں شرکت کرے گا۔