کفیل ماؤں کی آغوش اور ڈے کیئر

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 28 اکتوبر 2021 15:40

کفیل ماؤں کی آغوش اور ڈے کیئر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اکتوبر 2021ء) کچھ دنوں سے دل پر عجیب بوجھ تھا اور کسی طور کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔ آج وہ اڑتالیس برس کا تھا۔ تیرہ سال کی عمر سے جب ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تو آج تک نہ رکا اور اب اسی شہر میں اس کے تعلیمی اداروں کی انیس کے قریب برانچز ببانگ دہل اس کی کامیابی کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب جب زندگی مہربان ہوکر اس کو گزشتہ تین چار دہائیوں کا ثمر عطا کر رہی تھی، وہ شادمان ہوتا لیکن اس کے دل پہ بوجھ بڑھتا جارہا تھا۔

اب اس کی اپنی فیملی تھی، بیوی بچے، کاروبار، نیک نامی، عزت اور سب کچھ لیکن یہ بےچینی کسی طور کم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کے ضمیر پہ کوئی بوجھ تھا کیوں کہ اس نے محنت اور جائز طریقے سے اس سماج میں اپنا نام کمایا تھا۔

(جاری ہے)

مگر بس ایک دکھ تھا، جو اس کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا، جس ہستی کو سکھ دینے کے لیے اس نے اتنی محنت کی تھی، اس مہرباں ماں کی آغوش اور لمس اب اس کو میسر نہیں تھے۔

جو ماں ایک گھنی چھاؤں اور سائباں کی طرح اس کو ہر گرم سرد سے بچاتی رہی، وہ اس کو زندگی میں وہ سکھ دینے میں ناکام رہا، جن کی وہ حقدار تھی اور یہ خلش عجیب تھی اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اس خلش کو مٹا نہیں پا رہا تھا۔

ابھی تمام سکولز کے پرنسپلز کے ساتھ اس کی میٹنگ تھی۔ دیگر تمام باتوں کے دوران کسی نے ایک تجویز دی کہ ہمیں اپنی تمام برانچز میں اساتذہ کو ان کے بچوں کے لیے ڈے کیئر کی سہولت دینی چاہیے۔

نئے اور اچھے اساتذہ بہت مشکل سے ملتے ہیں اور ٹرینڈ اساتذہ اگر اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے ادارہ چھوڑ دیں تو ادارے کی ساکھ پر فرق پڑتا ہے۔ نئے لوگ مل تو جاتے ہیں لیکن ان کی ٹریننگ ایک صبر آزما مسئلہ ہوتی ہے۔ شادی شدہ اساتذہ، شوقیہ نوکری کرنے والوں کے مقابلے میں کام کے معاملات میں زیادہ سنجیدہ اور پروفیشنل ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد کفالت ہوتا ہے۔

ڈے کیئر کا قیام ضروری ہے تاکہ ہمارے بہترین اساتذہ اپنے بچوں کے تحفظ کی طرف سے مطمئن ہوکر اپنےکام کے معیار کو مزید بہتر بنائیں۔ یہ تجویز میٹنگ کے دوران ہی بڑی بری طرح سے رد کردی گئی کہ اس طرح تو ہم ملازمین کو بگاڑ دیں گے۔ ہم پہلے ہی کنفرم استانیوں کو سیلری کےساتھ میٹرنٹی لیوز دیتے ہیں، کم ہی ادارے اتنی سہولت دیتے ہیں اپنے ملازمین کو۔

اس صورت میں اساتذہ کی توجہ زیادہ اپنے ذاتی بچوں پر مبذول رہے گی اور جو کمرے ڈے کیئر کے لیے استعمال کرنے کے لیے تجویز کیے گئے، ان میں کلاسوں کے مزید سیکشنز بڑھانے کی تجویز بھی دی گئی تاکہ طلبا کی تعداد کے ساتھ ساتھ ایڈمیشنز اور منافع بڑھے۔ جب اس کی حتمی رائے مانگی گئی تو وہ خاموش رہا کیونکہ ماضی کی ایک تلخ یاد اچانک ایک فلیش بیک کی صورت ذہن میں آئی۔

ڈے کیئر کے حق میں دو جب کہ سیکشنز بڑھانے کے حق میں سترہ ووٹ تھے۔ اس نے بجائے کوئی حتمی رائے دینے کہ ان دو اصحاب کی طرف رخ کرکے کہا کہ اگلی میٹنگ میں آپ دونوں حضرات ڈے کیئر کے حوالے سے اپنی پریزٹیشن تیار کر کے لایئے گا۔ میرے خیال میں ہمیں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہیے۔ میٹنگ برخاست ہوئی تو وہ سگریٹ سلگا کر اس تلخ یاد کے منجدھار میں ڈوبنے لگا، جس کو سوچ کر اب بھی اس کے منہ کا ذائقہ تلخ ہوجاتا تھا۔

اس کو یاد آیا جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ ایک اسکول میں جاب انٹرویو کے لیے گیا تھا اور جب ماں انٹرویو فارم پر کرنے کے بعد ہاتھ پکڑے پرنسپل کے سامنے آکر بیٹھی تو پرنسپل نے اپنے سبز پن سے ازدواجی حیثیت طلاق یافتہ کو خط کشید کیا اور نہایت تلخ اورحقارت آمیز لہجے میں کہا تھا کہ ہمارے ادارے میں آپ جیسی عورتوں کی جگہ نہیں ہوتی کہ طلاق یافتہ، بیوہ اور بچوں والی خواتین کے بہت مسائل ہوتے ہیں یا تو یہ ذہنی طور پر فٹ نہیں ہوتیں کہ کام پہ توجہ دے سکتیں، یا ان کے آئے روز کے مسائل، چھٹیوں کی درخواستیں وغیرہ۔

ان حادثات کی وجہ سے ان کے مزاج میں تلخی ہمارے سکول کے ماحول کو خراب کرتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اسکول کے اساتذہ مثالی کردار کے مالک ہوں، ہم کسی ایسے بندے کو اپنے ادارے کا حصہ نہیں بنا سکتے، جس کا ماضی داغدار ہو، آپ جاسکتی ہیں آپ ہمارے ادارے میں نوکری کے لیے فٹ نہیں ہیں۔

اس کی ماں دنیا کی بہادر ترین عورت تھی لیکن اس آفس سے نکلتے وقت اس نے ماں کے قدموں میں جو لرزش محسوس کی وہ آج تک اس کے دل پر رقم تھی کہ پورا راستہ پبلک ٹرانسپورٹ میں کھڑکی کی طرف چہرہ کر کے کیسے ماں اپنے آنسو خاموشی سے پونچھتی ہوئی آئی تھی اور تب ہی اس نے دل میں عہد کیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہوکر اپنا اسکول بنائے گا اور کبھی کسی کے ساتھ ایسا برا برتاؤ نہیں کرے گا۔

صرف وہ اور اس کی ماں جانتے تھے کہ نوکری ان کے لیے کتنی ضروری تھی ۔

گھر آکر بھی ماں گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ رات تک ٹیوشنز پڑھاتی کہ اس کو اچھی زندگی مل سکے وہ چھٹی یا ساتویں میں تھا، جب اس نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیوشن کے لیے آئے نرسری کے بچوں کو پڑھانے میں ماں کی مدد شروع کر دی۔ دروازے پر دستک ہوئی تو وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا، ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ کچھ دیر میں چھٹی کا ٹائم ہو جائے گا اور پھر رش سے گاڑی نکالنا مشکل ہوگا ہم ابھی نکلیں یا سب کے جانے کے بعد؟ اس نے جواب دیا ہم نکلتے ہیں۔

اس نے مین گیٹ کی طرف جاتے ہوئے شیشے کے دوسری طرف نظر دوڑائی تو پری اسکول کے وہ بچے جن کی چھٹی پہلے ہوجاتی تھی وہ کھیلتے ہوئے دکھائی دیے۔ کچھ دیواروں کے ساتھ منہ بسور کر اپنے بہن بھائیوں کی چھٹی کا انتظار کرتے دکھائی دیے۔ ایک بچہ شاید ٹیبل پہ سر رکھ کر سو چکا تھا اور پری اسکول کی ایک کم عمر سی استانی اس بچے کے منہ سے بہنے والی رال ٹشو پیپر سے نہایت آرام سے صاف کر رہی تھی۔

ایک دم پھر اپنی ماں کی جھلک نظر آئی کہ وہ کیسے ہر اس طرح کے بچے کے لیے سراپا مامتا بن جایا کرتی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلا تو امید کے مطابق کافی والدین چھٹی سے قبل اپنے بچے پک کرنے آچکے تھے۔

ایک صاحب بائیک پر شاید اپنے دوسال کے بچے کے ساتھ کسی کے منتظر تھے۔ دو بچے اسکول یونیفارمز میں رکشے میں بیٹھے پسینے میں نڈھال اسکول کے گیٹ کو تکتے پائے گئے۔

گیٹ کیپر نے اس کی توجہ محسوس کرتے ہوئے فورا کہا کہ یہاں پر اساتذہ کے گھر والے ان کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوا اور رکشے والے بچوں کو آخری بار دیکھا تو اس کو اپنا وقت یاد آ گیا، جب اسکول کی چھٹی ہوجانے کے بعد وہ اسکول کے باہر تھڑے پر ماں کا انتطار کرتا رہتا تھا اور گرمی اور بھوک سے نڈھال ہو جاتا تھا کہ کب ماں آئے گی اور وہ کب گھر جائے گا۔

ماں کا اسکول دور تھا تو وہ صبح اس سے پہلے جاتی اور وہ نانی کی ذمہ داری ہوتا۔ اس کا کتنا دل مچلتا تھا کہ اس کی ماں بھی دروازے پر پیشانی چوم کر اسے رخصت کرے لیکن ماں کے اسکول کی فیس زیادہ تھی، اگر وہ وہاں پڑھتا تو ماں گھر کے باقی اخراجات کیسے پورے کرتی۔ اسے ماں سے کوئی گلہ نہ تھا بس ان حالات پر افسوس تھا اور آج وہ اس قابل تھا کہ اگر کوئی ان حالات میں جی رہا ہے تو اس کو آسانی دے سکے۔

جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھتی گئی اس کا دل اور دماغ اس کے اسکول کی تمام برانچز میں ڈے کیئر بنانے پہ راضی ہوتا گیا، اب ان مناظر کے بعد اسے کسی بھی پریزنٹیشن کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے واٹس ایپ گروپ میں میسج کیا کہ ہم کلاسسز بڑھانے کی بجائے، اپنی ہر برانچ میں ڈے کیئر کا آغاز کریں گے۔ مناسب پلان کے ساتھ پروپوزل، بجٹ اور ڈیزائن وغیرہ کی تیاری کریں۔

ہمارے ادارے کے تمام اساتذہ بنا کسی بھی فیس کے اپنے بچوں کو ڈے کیئر میں رکھ سکیں گے، ٹرینڈ میڈ اور آیا جی وغیرہ ڈے کیئر کے لیے مختص کریں۔ گروپ میں حیرانی کا اظہار کرتے کچھ میسجز کے ساتھ کسی نے ایک کمزور سا نکتہ پیش کیا کہ اگر دوتین کمروں یا ہال کو ڈے کیئر بنا دیا جائے گا تو اس سے ہمیں کوئی خاطر خواہ نفع نہیں ہوگا۔ وہ مسکرایا اور دل میں سوچا کہ آج کچھ ماؤں کو ان کے بچوں کے قریب کر کے میں اپنی ماں کو وہ ہدیہ دے رہا ہوں، جس کے لیے وہ ساری زندگی ترستی رہی۔

اکثر سارا دن کام میں جتے رہنے کے باوجود وہ رات کے اس پہر مجھے اپنی آغوش میں لیتی جب میں کچی پکی نیند میں ہوتا کبھی اس کے آنسو میرے بالوں میں جذب ہوتے تو کبھی چہرے پر، اگر ڈے کیئر بن جائے اور ایک دو مائیں بھی اپنے دن کےکچھ اوقات اپنے بچوں کے قریب گزار لیں گی تو اس سے بڑھ کر فائدہ میرے لیے کیا ہوگا۔

دو ہفتے کے اندر اندر تمام کام مکمل ہوئے اور آج وہ پہلی برانچ میں جاکر ڈے کیئر کا افتتاح کر رہا تھا۔

اسکول میں داخل ہوتے ہی اسے استانیوں کے روشن، چمکتے اور مسکراتے چہرے دکھائی دیے بالکل وہی چمک جو اس کی ماں کی آنکھوں میں اس کے اچھے رزلٹ پر آتی تھی۔

تھینک یو اور شکریہ کے ہینڈ میڈ کارڈ راہداری میں جابجا آویزاں تھے، بیگم بھی ساتھ تھیں لیکن حیرت اور خوشی کا سب سے بڑا جھٹکا تب لگا جب اس نے ڈے کیئر کے ماتھے پر اپنی ماں کانام پڑھا اور ایک بڑے سنہری فریم میں ان کی تصویر دیکھی۔

گلے میں پھنستے آنسوؤں کے گولے کے ساتھ اس نے تشکرانہ انداز سے اپنی بیگم کو دیکھا وہ جان گیا تھا کہ تمام ڈے کیئرز کا ماں کے نام سے آغاز کرنا کس کا آئیڈیا ہو سکتا ہے اور فیتہ کاٹتے ہوئے آج کئی دن بعد اس کو اپنا آپ بہت مطمئن اور پرسکون محسوس ہوا۔ اس نے آج اور ماؤں کو سکون دے کر اپنی ماں کے دل کو ٹھنڈک پہنچا دی تھی۔