پاکستان: توہین مذہب کے مبینہ الزام پر سری لنکن شہری ہجوم کے ہاتھوں قتل

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 3 دسمبر 2021 18:20

پاکستان: توہین مذہب کے مبینہ الزام پر سری لنکن شہری ہجوم کے ہاتھوں قتل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 دسمبر 2021ء) سیالکوٹ کے ایک پولیس اہلکار انور گھمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابتدائی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ پیغمبر اسلام کے نام والے اسلامی اسٹکرز کے معاملے میں پریانتھا دیاوادانا پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ ابھی تک کوئی کیس درج نہیں ہوا اور پولیس اس ہلاکت کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کے لیے کام کر رہی ہے۔

‘‘

سری لنکن شہری کی شناخت پریانتھا دیاوادانا کے نام سے کی گئی ہے اور اطلاعات کے مطابق وہ سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور ایکسپورٹ منیجر کام کر رہے تھے۔

لاش کو آگ لگا دی گئی

پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہجوم نے انہیں فیکٹری کے اندر ہی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم ایک انتہائی تشدد زدہ لاش کو سڑک پر گھسیٹ کر لاتا ہے اور پھر سینکڑوں افراد کی موجودگی میں اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔

وہاں موجود سینکڑوں افراد پریانتھا دیاوادانا کو قتل کرنے والے افراد کی ستائش کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

دوسری جانب صوبائی پولیس کے ایک اور سینیئر اہلکار عمر سعید ملک کا کہنا ہے کہ پولیس ابھی اس بات کا تعین کر رہی ہے کہ ہجوم نے سری لنکن شہری کو کن محرکات کی بنیاد پر قتل کیا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات عائد کر کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ یوں کسی غیر ملکی شہری کو قتل کیا گیا ہو۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی ہوئی

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم اور واقعے کے وقت موجود دیگر سینکڑوں افراد ویسے ہی نعرے لگا رہے تھے جیسے نعرے تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اپنے دھرنوں اور جلسوں میں بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک معروف کارکن حنا جیلانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اس واقعے کی وجہ پاکستان میں مذہبی جذبات ابھارنے والے بیانیے اور اقدامات کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ''پاکستان میں مذہبی جذبات اور احساسات کے حوالے سے بیانیے کو ضرورت سے زیادہ بڑھایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات پاکستان میں اکثر پیش آتے رہتے ہیں جو پورے معاشرے اور حکومت کے لیے خطرے کی علامت ہونے چاہییں اور قانون کی کوئی عملداری نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات کو بھی جذبات کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ جذبات انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ریاست کو اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے۔

‘‘

اس واقعے پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں انہوں نے لکھا، ''سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے پر مجھے شدید صدمہ ہوا ہے۔ میں نے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ تفصیلی تحقیقات کریں۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ میں اس بات کی یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس غیر انسانی عمل میں شریک کسی شخص کو نہیں بخشا جائے گا۔‘‘